سیاسی جماعتوں میں تنظیمی ڈھانچوں کا کردار

جمعہ 4 ستمبر 2020

Hussain Jan

حُسین جان

پہلے تو ایک بات کلیر کرلیں کہ جب تک انتخابات لڑنے والے امیدواروں کو یہ احساس نا ہو کہ انہوں نے ووٹ لے کر سیٹ حاصل کرنی ہے تب تک ان سے کسی بہتری کی امید مت رکھیں۔ میرے ایک دوست کہاکرتے ہیں کہ سیاست دان حلقوں میں اس لیے نظر نہیں آتے کہ ان کو پتا ہوتا ہے جیسے ہی انتخابات ہوں گے ہم مارکیٹ میں پیسہ پھینک کر ووٹ حاصل کرلیں گے۔

یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ امیدواروں کو ہر حال میں یہ احساس ہونا چاہیے کہ میرے پیسے نہیں بلکہ میرا کردار اور کام ہی میرے جیتنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اگر یہ احساس پیدا ہوجائے تو تمام سیاستدان آپ کو حلقوں میں روزانہ کی بنیادوں پرنظر آئیں گے۔
جب امیدوار ووٹ کے لیے باہر نکلے گا تو اسے سب سے پہلے اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی ضرورت پڑئے گی۔

(جاری ہے)

اب یہاں بھی صورتحال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے کارکنان صرف اور صرف انتخابات میں دیہاڑی لگانے کے لیے میدان میں کودتے ہیں۔ ایسے ورکرز سیاسی جماعت اور عوام دونوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔ خیر تو ہم بات کر رہے تھے۔ انتخابات میں کارکنان کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ وہ اپنے امیدواروں کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ کارکنان کسی بھی سیاسی جماعت کا وہ اثاثہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں نیب بھی نہیں پوچھتا کہ یہ اثاثہ کہاں سے آیا۔


ایک بات ہمیں تسلیم کرنی پڑئے گی کہ پاکستان تحریک انصاف وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے ملکی تاریخ کہ پہلے پارٹی الیکشن کروائے۔ ایسی مثال دوبارہ دیکھنے میں نہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں بیٹھے گرگے کارکنان کو کسی صورت بھی آگے نہیں آنے دیتے۔ راہنماؤں تک ورکرز کی پہنچ نہیں ہوتی۔ سیاست ایک ایسی دوڑ ہے جس میں تیز بھاگنے والا نہیں بلکہ تیز سوچنے والا جیتتا ہے۔

اگر آپ اس انتظار میں بیٹھے رہیں کہ ہم پرانے سیاسی کارکن ہیں اوریہ پارٹی کا کام ہے کہ ہمیں ہمارا حق دے تو ایسا ممکن نہیں اس کے لیے آپ کو خود آگے آنا پڑئے گا۔ تبی کہیں شنوائی ہوگی۔
بلدیاتی انتخابات کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ ایسے میں جس سیاسی جماعت کے پاس منظم تنظیمی ڈھانچہ موجود ہوگا اس کے جیتنے کے امکان زیادہ ہوں گے۔ بد قسمتی سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کارکنان کو خاطر خواہ عزت نہیں دی جاتی۔

اس میں قصور صرف سیاسی جماعت یا لیڈران کا نہیں ہوتا بلکہ ورکرز بھی اتنے ہی زمہ دار ہوتے ہیں۔ کارکنان ایک دوسرئے کو نیچا دیکھانے کے لیے کسی حد تک بھی گر جاتے ہیں۔ خود کو صاحب بہادر کے سامنے لانے کے لیے وہ کسی کے بھی کندھوں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بات حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جیت اور ہار میں کارکنان کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کے زیادہ تر لیڈر کارکنان میں سے ہی بنتے ہیں وہاں ایک ایسا تنظیمی سسٹم تشکیل دیا جاتا ہے جو آنے والے وقت میں پارٹی کو لیڈرز مہیا کرتا ہے۔
سیاسی جماعتیں کارکنان کے لیے درس گاہ ہوتی ہے جس سے وہ اپنی سیاسی تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں۔ من پسند افراد کو نوازنے کا رواج ہمارے ہاں بہت پرانا ہے۔ یہاں دیکھا جاتا ہے کون سا کارکن ہماری زیادہ چاپلوسی کرتا ہے اور پھر اس چاپلوس کی موجیں لگ جاتی ہیں۔

جبکہ اس کا خمیازہ بعد میں پارٹی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں زبانی کلامی ہی عہدے بانٹ دیتی ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن کے آئین میں واضح ہدایات ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں مخصوص وقت میں جماعتی الیکشن کروانے کی پابند ہیں۔ ہمارے ہاں کیونکہ موروثی نظام رائج ہے اس لیے جماعتینتخابات ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں۔اب آپ کے تعلقات یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کو پارٹی میں کس پوزیشن میں لگایا جائے گا۔


پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس حوالے سے زیادہ بدنام ہیں کہ وہ جب کبھی بھی برسراقتدار آتیں ہیں من پسند افراد کو میرٹ کے برعکس نوکریاں بانٹتی ہیں ۔ یہ کوئی مزائقہ خیز بات بھی نہیں آپ اپنے کارکنان کو ضرور نوکریاں دیں مگر اس میں کم از کم میرٹ کا تو خیال رکھا کریں۔ آج کل پاکستان تحریک انصاف کی بدیاتی سطح تک تنظیم سازی ہورہی ہے۔

ہرطرف ایک عجیب ساشور بھرپا ہے۔ ہر بندے کی کوشش ہے کہ ہمارے پسندیدہ کارکنان کو کلیدی عہدہ دیا جائے۔ تحریک انصاف کے لیڈران کو چاہیے کہ جو بھی فیصلہ کریں میرٹ پر کریں۔
مظبوط تنظیمی ڈھانچے سے کسی بھی سیاسی جماعت کو مندرجہ زیل فائدے ہوتے ہیں۔
جماعت کی عام آدمی تک پہنچ
انتخابات میں ہر علاقے کا ریکارڈ موجودرہتا ہے
رائے عامہ ہموار کرنے میں مدد ملتی ہے۔
نئی قیادت ابھرتی ہے۔
لوگوں کے مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے۔
پارٹی کی جڑیں مظبوط ہوتی ہیں۔
مخصوص لوگوں کی اجاراداری ختم ہوجاتی ہے۔
سیاسی جماعتیں مظبوط ہوتی ہیں۔
عام کارکنان کی لیڈرشیپ تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔
انتخابات کے لیے بہترین ٹیم تیار ہوجاتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :