پروپیگنڈا

پیر 15 فروری 2021

Hussain Jan

حُسین جان

ساکھ، اعتبار یعنی کریڈیبلٹی صحافت کی اساس ہے. اخبار ہوں یا نیوز چینلز ہوں، سوشل میڈیا ہو یا یوٹیوب چینلز ہوں. جب تک کوئی میڈیا یا شخص کریڈبیلٹی ملحوظ خاطر نہیں رکھتا تب تک قاری، اور سامعین اس کی بات کا یقین نہیں کرتے.
ایک لفظ ہے پراپیگنڈا جسے عموما برا سمجھا جاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر پراپیگنڈا جھوٹ پر مبنی ہو.

کچھ یار دوست پراپیگنڈا کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں. دراصل یہ کہنا پراپیگنڈے کی سائنس کے ساتھ زیادتی ہے. بات پھیلانے کو پراپیگنڈا کہتے ہیں. وہ سچ اور جھوٹ دونوں پر مبنی ہوسکتا ہے.
ترقی یافتہ ممالک نے پراپیگنڈے کو بنیاد بنا کر بہت سے فوائد حاصل کیے. ہٹلر وہ شخص تھا جس نے اس کا بہترین استعمال کیا.

(جاری ہے)

دوسری جنگ عظیم میں یورپ کے بہت سے ممالک نے پراپیگنڈے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا.
موجودہ دور میں دیکھیں تو اب سوشل میڈیا پر مختلف ممالک اپنے دشمن ممالک کے خلاف بہت سا جھوٹا سچا مواد پھینک رہے ہیں جس سے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کیا جاتا ہے.

انڈیا اور پاکستان کی مثال لی جاسکتی ہے. دونوں ممالک کے سوشل میڈیا ایکٹوست ایک دوسرے کو غیر منظم اور خوفناک ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں. کشمیر کو لے کر بھی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے. انڈیا عالمی برادری کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ پاکستان ایک غیر مستحکم ملک ہے. اس ملک کی افواج سیاست میں بہت زیادہ دخل اندازی کرتی ہے.

پاکستان میں جمہوریت مستحکم نہیں. ان کے اپنے بہت سے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل ہیں لہذا وہ کشمیر کو ساتھ ملا کر بھی کچھ خاص نہیں کرپائیں گے. دوسری جانب پاکستانی کشمیر کو شارگ گردانتے ہیں اور یہ موقف اپناتے ہیں کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ناطے کشمیر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے. اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خوداردیت دینا چاہیے ؤعیرہ وغیرہ.


انڈیا اور چین بھی ایسی ہی سول وار کا سامنا کر رہے ہیں لداخ اور اس جیسے دیگر علاقوں پر اجارہ داری قائم کرنے کے لیے پراپیگنڈے کا صحارا لیا جارہا ہے.
ماضی میں پراپیگنڈے کے زرائع محدود تھے. یہ چونکہ یورپ کا ہتھیار تھا اس لیے سب سے پہلے چرچ کے زریعے لوگوں کو پیغام پہنچایا جاتا تھا. پادری حضرات اس میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے. اس کے ساتھ ساتھ اخبارات.

پیمفلٹ وغیرہ کا بھی بے دریغ استعمال ہوتا تھا. جیسے جیسے جدت آتی گئی پراپیگنڈے کے زرایع بھی بڑھتے گئے، ریڈیو، ٹیلی ویژن، وی سی آر اور آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا کے زریعے بہترین طریقے سے پراپگنڈہ کیا جارہا ہے. ایک بات اور بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ماضی میں پراپیگنڈا محدود پیمانے پر ہی کیا جاتا تھا جبکہ آج کے دور میں گلی محلے سے لے کر عالمی سطح تک اس کی رفتار بہت تیز ہے.
پراپیگنڈے کا آغاز دراصل جنگوں میں ہوتا تھا تاکہ عوام حکمرانوں کے بیانیے کے ساتھ کھڑی رہے اور دوسرے ممالک کو ظالم تصور کرے.

اب تو سیاسی جماعتیں بھی اس سائنس میں کود پڑی ہیں. اس کے لیے وہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کا استعمال بھی کر رہی ہیں. بلکہ ہر سیاسی جماعت نے باقاعدہ سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کام ہی  سارا دن مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنا ہوتا ہے. ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے لیے ان سیلز کا استعمال کیا جاتا ہے. اب تو یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ کیا سچ اور کیا جھوٹ ہے.

میاں محمد نواز شریف کو عدالت عالیہ نے سزا سنا رکھی ہے لیکن ان کی پراپیگنڈہ ٹیم اور وہ خود بھی  لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں. اور مزے کی بات ہے کہ ان کو لیڈر ماننے والے اسے حقیقت بھی تسلیم کرلیتے ہیں.
عالمی تناظر میں دیکھیں تو دنیا کو  اسی صورتحال کا سامنا  ہے. غریب اور کمزور ملک کے سچ کو بھی پراپیگنڈا سمجھ کر مسترد کردیا جاتا ہے.  جبکہ اس کے برعکس طاقتور ممالک اپنا  جھوٹا پراپیگنڈا نا صرف پھیلاتے ہیں بلکہ مسلط بھی کر دیتے ہیں.

جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملا بنا ہوا ہے.
جب معاشرے میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والی مشینری زیادہ فعال ہو تو سچ کہیں پیچھے راہ جاتا ہے.
آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا جب کسی بھی ملک میں انتخابات ہوں رہے ہوں تو گراونڈ سے زیادہ الیکٹرانک میڈیم استعمال کیے جارہے ہوتے ہیں. سیاستدانوں کے ملازم نما کارکنان لوگوں کو لیڈر کے باتھ روم جانے سے لے کر سونے تک کی پل پل کی خبر دیتے ہیں.

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقتدار غلط لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے اور ملک میں ترقی کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے.
پراپیگنڈے کا استعمال مثبت بھی کیا جاسکتا ہے. جیسا کہ مذہبی اقدار و تعلیمات، رسم و رواج کی ترویج، تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اس کے بے شمار مثبت پہلو بھی ہیں. اب یہ لوگوں پر منصر ہے کہ وہ اس کا استعمال کیسے کرتے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :