مہنگائی کی چکی میں پستی غریب عوام اور حکومت کے تبدیلی کے دعوے

بدھ 2 جون 2021

Iman Saleem

ایمان سلیم

پاکستان میں ہر شخص کی روداد ایک کہانی ہے۔ کہانی یعنی ہر ایک آدمی کی داستان جس میں مزدور، دکاندار، لوہار اور کسان شامل ہیں اور ان تمام داستانوں کا مرکزی کردار ہے مظلوم جو کہ حکومت اور میڈیا کی آنکھ سے اوجھل ہے۔ اور یہ تمام کردار مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جس کو کئی مسائل درپیش ہوں اور عوام کو تین وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو تو اس سے زیادہ دل خراش بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔

ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے ایک ایسے انسان کی کیفیت جو دن بھر مزدوری  کرتا ہے، محنت کرتا ہے اور رات ہونے پر جب وہ اپنے اہل و عیال کے لیے خریدوفروخت کرنے بازارجاتا ہے تو اشیاء کے بھاری دام دیکھ کر خالی ہاتھ ہی واپس آجاتا ہے۔ ایسے میں اگر موجودہ حکومت کی بات کریں توعمران خان کی حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تقریبا تین سال ہو چکے ہیں لیکن مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث غریب کا چولہا بجھ کر رہ گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس سال مہنگائی کی شرح دس فیصد سے زیادہ تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی مشکل میں پر چکی ہے۔ پھر اگر ایک غریب شخص غربت اور افلاس کی وجہ سے خود کشی کرے یا کہیں ڈاکہ ڈالے تو وہ قصور وار ہے۔  ایسے میں حکومت کے تبدیلی کے دعوے کہاں گئے جو عوام کی سہولت اور ان کے حقوق کے لیے کیے گئے تھے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں حکومت کو جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت نے عوام سے ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اور ایک اچھی حکومت یا جمہوریت تب ہی اپنے منصب کی اہل قرار پاتی ہے جب وہ اپنی عوام کو ان کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کا حق دے سکے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کے لیے حکومت کو اپنی پوری طاقت اور وسائل سے کام لینا چاہیے اور مختلف رشوت خوروں اور ہیرا پھیری کرنے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دینی چاہیے۔

اگر حکومت نے جلد اس پر قابو نہ پایا تو یہ مسلئہ بہت بڑھ جائے گا۔ اب وقت ہے کہ حکومت واقعی میں ماضی کے معاملات کو بھلا کر موجودہ حالات و واقعات اور مہنگائی کے مسلۓ پر توجہ دے تاکہ پاکستان کا کوئی بھی فرد بھوکا نہ سوئے۔
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی مگر غریب کی فاقوں سے مر گئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :