پاکستان کا مستقبل روشن ہے

منگل 10 نومبر 2020

Imran Amin

عمران امین

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ طبعی حالات، جغرافیائی محل وقوع،رنگ،نسل،زبان اُور رسم و رواج کے اختلافات کی بنا پرانسان مسلسل مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتا گیااُور یہ تقسیم انجام کار اتنی مستقل ہوگئی کہ اس کے نتیجے میں ملکوں اُور قوموں کا وجود عمل میں آگیا۔رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ انسان نے دُوسرے انسان کو اپنا بھائی سمجھنے کی بجائے دشمن خیال کرنا شروع کردیا بلکہ اس سے بڑھ کر انسان نے انسان پر اپنی خُدائی جمانے کی کوششیں شروع کردی۔

لیکن ان سب باتوں کے باوجود اس دنیا میں بے شمار ایسے با کردار افراد گزرے ہیں جنہوں نے انسانوں کی فلاح وبہبود کواپنی زندگی کا نصب العین بنایا اُور ایک خاص نظم و ضبط کے ساتھ اپنی زندگی گزاری۔ مقصد ایک ہی تھا کہ کسی طرح اس کرہ ارض پر بسنے والوں کی زندگیاں آسان بن جائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس سفر حیات میں اپنی نفسانی خواہشات کا گلا گھونٹا، اپنے عزیز و اقارب کو ناراض کیا مگر اپنے نصب العین سے انحراف نہ کیا۔

یہ سچ ہے کہ کسی بھی قوم کے لیے خوش نصیبی کی بات ہوتی ہے کہ اہل اقتدارو صاحب ثروت لوگ عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں اُور حقیقی معنوں میں ”عوام کی حکومت، عوام کی بہتری کے لیے“ کے فارمولہ پر عمل کرنے کے خواہشمند ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ”تم میں سے سب سے معزز و سر بلند وہ شخص ہے جو پرہیزگاری اور خُدا ترسی میں سب سے بڑھا ہوا ہو“۔

حقیقت یہ ہے کہ اس بلند مقام کا مالک ایک مرد مومن ہی ہو سکتا ہے اُاور یہ مقام بلاشبہ اسقدر بلند ُاور عالیشان ہے کہ فرشتے بھی اس کی بلندیوں کو حیر ت و استعجاب سے دیکھتے ہیں۔
کوئی جبریل سے پوچھے مری پرواز کی شوکت
ستارے بھی تماشائی، ملائک بھی تماشائی
آج افسوس اس بات پر ہے کہ پاکستانی قوم کے اکژسیاسی اُور مذہبی رہنماؤں پر خبط سوار ہے کہ اگر وہ مسند اقتدار پر بیٹھے ہو تو ملک میں ”سب اچھا“ ہے اُور جب وہ اپوزیشن میں ہو توملک کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے یعنی جب تک اُن کا شملہ اُونچا ہے اس ملک کی بھی اُونچی شان ہے۔

اس کے برعکس جب ہم اپنے اسلاف کی طرف دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بابائے قوم کے کردار کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ گورنر جنرل تھے تو انہوں نے اپنے بھائی سے صرف اس بات پر ملنے سے انکا رکر دیا تھا کہ اُس نے گورنر جنرل ہاؤس میں ملاقات والی چٹ پر کیوں لکھا کہ وہ گورنر جنرل پاکستان کے بھائی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جب اپنے جانشینوں کی فہرست بنائی تو انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر ؓ  جوکہ ایک جلیل القدر صحابی تھے اُن کانام بھی اس میں شامل کرٰدیں۔

مگر صدقے جائیں! اس صحابی رسول ﷺ پر،کتنا خوبصورت جواب دیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا”اگر اُن کے خاندان کے لیے اقتدار نعمت تھی تو عمرؓ اس نعمت سے فیض یاب ہو چکا اُور اگر اُن کے خاندان کے لیے اقتدار آزمائش تھی تو وہ اس آزمائش سے گزر چکے ہیں“۔یہ تو ہے ہمارے اسلاف کے کردار کی چند جھلکیاں وگرنہ اس طرح کے واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے جبکہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت اقتدار کو اپنے گھر کی لونڈی بنانا چاہتی ہے۔

ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں مال مسروقہ کی تقسیم کو ہی پاکستان میں جمہوریت کا نام دیا گیا ہے اُور اس جمہوریت کے لبادے میں خاندانی اُور موروثی سیاست کی گدیاں قائم کی گئی ہیں۔خوش قسمتی کی بات ہے کہ اس وقت پاکستان کی قیادت ایسے فردکے ہاتھوں میں ہے جس کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے  اُور اُس کی حب الوطنی کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

وزیر اعظم عمران خان دین اسلام کا سچا پیروکار،پیغمبر خُدا کی پیروی اپنے لیے باعث فخر سمجھنے والا ریاست مدینہ کے قیام کا خواہاں ہے اُس نے اقتدار کے دنوں میں اپنا کوئی کاروبار شروع نہیں کیا اُور نہ ہی ماضی میں یا حال میں مالی کرپشن کا الزام اسکی ذات پر ہے۔دُوسری طرف ہمارا فخر اور ہماری شان پاکستانی فوج کا سپہ سالار ایسا شخص ہے کہ جس کی دانشمندی اُور پیشہ ورانہ صلاحیت کو ساری دنیا مانتی اُور جانتی ہے۔

سپہ سالار پاکستان قمرجاوید باجوہ ایسا مرد مجاہدہے جو اپنے وطن کے لیے جان قربان کرنے کے جذبے سے سرشار ہے نیز ایسے پیشہ ورانہ افرادکی سربراہی کر رہا ہے جو ہم وطنوں کے آرام کے لیے اپنے سکون کو خراب کرنے کا حوصلہ اُور جرات رکھتے ہیں اُور دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے خوشی سے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔خوش قسمتی سے ہماری غیرجانبدار اُور آزاد عدلیہ میں بھی بہت سے ایسے سپوت بیٹھے ہیں جو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں جو کسی بھی دباؤ کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عدل والے فیصلے کرتے ہیں بد قسمتی سے سیاسی مجرم اُور سیاسی لٹیرے ہماری عدالتوں سے خائف ہیں۔

مضمون کے آخر میں بانی پاکستان قائد اعظم اُور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی الگ الگ تقاریر کے چند جملے لکھنا چاہوں گا اُور فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں، آپ خود جانچیں کہ دونوں کی سوچ میں کس قدریکسانیت ہے؟۔قائد اعظم اپنی تقریر میں فرماتے ہیں ”پاکستان ایک روشن حقیقت ہے ہم اس عظیم مملکت کے مسائل آئین و ضبط،صبرو تحمل اور عدل و انصاف سے حل کریں گے۔

ہم اس آزاد اور خود مختار مملکت کو دنیا کی عظیم ترین ترقی یافتہ مملکت بنا دیں گے“۔عمران خان نے ایک تقریب میں کہا تھا”میں جانتا ہوں کہ مہنگائی ہے،بجلی،گیس اور پٹرول مہنگا ہے مگر ہمارا ارادہ اپنے پاؤں پرکھڑا ہونا ہے۔یہ مشکل وقت ہے جس کو ہمیں آئین و ضبط اور صبر و تحمل سے گزارنا ہے ایک دن اپنی مضبوط اُورپائیدار معیشت کی وجہ سے ہم جلد ایک عظیم قوم بن کر اُبھریں گے۔انشاء اللہ“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :