"بگرام سے ظلم و بربریت کا ایک دور اختتام پذیر ہوا"

منگل 6 جولائی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

امریکہ کی افواج کا دوہا اکورڈ کے تحت افغانستان سے انخلاء کا سلسلہ جاری ہے۔ ویسے تو امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے انخلاء کی ڈیڈ لائن 11 ستمبر کی دی گئی تھی مگر اب جس رفتار سے امریکی اور نیٹو افواج نکل رہی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ دی گئی ڈیڈ لائن سے قبل ہی انخلاء مکمل کرلے گا۔ اسی تناظر میں جب امریکہ کے افغانستان پر قبضے کی بات آتی ہے تو یہ ممکن نہیں کہ بدنامِ زمانہ بگرام ایئربیس اور اس کے احاطے میں قائم بگرام جیل کی بات نا کی جائے جہاں امریکی افواج نے ظلم وبربریت کی داستانیں قائم کی ہیں۔

امریکہ کہ افواج نے اب بگرام ایئر بیس کو بھی خالی کردیا ہے۔ یہ وہ قیدخانہ ہے جہاں افغان قوم کو آزادی کی خاطر کی جانے والی مزاحمت کا حساب ایسی خوفناک سزاؤں کی صورت میں دینا پڑتا تھا کہ جسے دیکھ کر دنیا کے ظالم ترین حکمران چنگیز خان اور ہلاکوخان بھی کانپ اٹھے۔

(جاری ہے)

اگر بگرام قیدخانے کو افغانستان کا گوانتانامو بے کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔


بگرام ایئر بیس کو 1950 میں امریکہ نے تعمیر کیا تھا تاکہ سویت یونین کے خلاف ایک مستقل بیس موجود ہو جسے افغانستان میں کمیونسٹ انقلابِ سور کے بعد سویت افواج نے اپنے قبضے میں لیا اور اسے جدید خطوط پر استوار کرکے یہاں سپاہیوں کی رہائش کے لیئے بھی کوارٹرز تعمیر کیئے۔ 2001 میں آمریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد جب امریکہ نے اسے دوبارہ اپنے قبضے میں لیا تو اس نے ہائی پروفائل قیدیوں کو کیوبا کے گونتاناموبے جیل بھیجنے کے بجائے اسی بیس کے اندر ایک ڈیٹینش کیمپ قائم کیا اور تب سے لیکر 2021 تک اسے افغانوں کے لئے مصباح خانے کے طور پر استعمال کیا۔


 بعض اوقات تو ظلم کی نوعیت اسقدر حولناک ہوتی تھی کہ کئی مرتبہ امریکی صحافیوں نے بھی مجبوراً اس کے خلاف قلم اٹھائے اور اسے بند کرانے کے مطالبے کیئے۔ انہی ظلم و بربریت کے شکاروں میں سے شکار حبیب اللہ اور دلاور بھی تھے جو 2002 میں بگرام جیل میں امریکی فوجی افسران کی حیوانیت کی بھینٹ چڑھے۔ جب ان دونوں کی موت ہوئی تو اسے خودکشی کا لیبل لگاکر بات کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر تب تک امریکی افواج کی نازیوں سے بھی بدتر کاروائیوں کی داستانیں عالمی میڈیا کی شہ سرخیاں بن چکی تھی۔

واشنگٹن نے شرمندگی سے بچنے کے لئے ایک برائے نام تفتیش کا آغاز کیا جس میں 15 امریکی فوجیوں سے تفتیش کی گئی اور 5 فوجیوں پر جرم ثابت بھی ہوا کیونکہ حبیب اللہ کی آٹوپسی رپورٹ کے مطابق اس کی ٹانگوں پر اتنا تشدد کیا گیا تھا گویا اس کی ٹانگوں پر ایک بھاری بھرکم ٹکے چڑھایا گیا ہو۔ مگر محض دکھاوے کے لئے ایک افسر کو پانچ ماہ کی قید ہوئی جبکہ دیگر چار کو باعزت بری کیا گیا۔


بگرام جیل میں کئی افغان ماؤں کے پیاروں نے قیامت کو دیکھا ہے۔ انہی میں سے ایک ایسی ہی دردناک کہانی دلاور کی بھی ہے۔ جسے صرف اس جرم میں موت کے منہ میں بے دردی سے اتارا گیا کیونکہ وہ اپنی ٹیکسی میں امریکی ایئر بیس کے پاس ایسے وقت میں گزر رہا تھا جب طالبان کی جانب سے اس بیس پر حملہ ہوا تھا۔ امریکی جریدے نیویوک ٹائم کے مطابق دلاور کی کلائیوں میں چین ڈال کر اسے چھت سے 4 دن تک لٹکایا گیا جس کی وجہ سے اس کے بازو اس کے جسم سے الگ ہوچکے تھے۔

اسی طرح چھت سے لٹکتے ہوئے ہی وہ اذیتوں کی تاب نا لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔ اور تب بھی اسے نیچے نہیں اتارا گیا جب تک اس کے مردہ جسم نے اکڑنا نا شروع کیا۔ دلاور اور حبیب اللہ وہ کیسز ہیں جو منظرِ عام پر آئے مگر اس کے علاوہ اس جلاد خانے میں میں نا جانے کتنے بے گناہ افغانوں کو امریکی افواج نے اتنی ہی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا ہوگا کہ جسے سن کر انسانیت بھی شرما جائے۔


آج 20 سال بعد بگرام کی قتل گاہ سے بالآخر جلادوں نے سامان باندھ کر روانگی شروع کری ہے جو پچھلے 20 سال سے افغانوں کے خون سے "وار آن ٹیر کے نام پر" افغانوں کے خون سے کھیلتے رہے۔ قابضین افواج کی جانب سے ظلم و بربریت کا یہ دور بھی آخر اختتام کو پہنچ گیا ہے مگر اس جیل میں جتنے لوگوں نے قربانیاں دی ہے اور تاریخ کی حولناک اذیتیں سہی ہیں یہ کم سے کم تب تک یاد رکھی جائیں گی جب تک افغانستان کا وجود رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :