استاد کا احترام ترقی کی ضمانت

منگل 6 اکتوبر 2020

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

آج کے اس جدید سائنسی دور میں معلم کی اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔استاد معاشرے کا سب سے مقدس اور قابل ِ احترام ہستی شمار ہوتا ہے‘ جو معاشرے کے نونہالوں کی گھنی دھوپ میں چھاؤں بن کر صحیح معنوں میں آبیاری کرنے کے لئے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔عالمی یوم ِ اساتذہ دنیا کے مختلف ممالک مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں، مگر ایک بات مشترک ہے کہ اساتذہ کا دن انتہائی خلوص، محبت، عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔

اس موقع پراسکول و کالجوں اور جامعات میں مختلف پروگرامات خصوصی سیمینارز، کانفرنسیں، تقاریر ، قیمتی تحائف اور جلسوں کے زریعے اساتذہ کی خدمات کو سراہا جاتا ہے اور معلم کے احترام کا درس دیا جاتا ہے۔
یقینا دنیا میں علم کی قدر اس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت کا مقام حاصل ہو۔

(جاری ہے)

اس بات کا زمانہ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموں نے ہی اس زمین پر حکمرانی کی ہے اور ا ن پڑھ قومیں ان کے ماتحت رہی ہیں۔

اگر آج ہم پسماندہ ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم آداب ِ معلم بھول گئے ہیں۔آج جن اقوام نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اور سائنسی دنیا میں انقلاب برپا کر کے پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک پر اپنی طاقت کا سکہ بٹھایا ہے‘ثقافت سے لے کر مذہب‘ گویا ہر شعبے میں ہم پر مسلط ہیں‘ تو استاد کی ہی مرہون ِ منت ہے۔
عمیق مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جو مقام استاد کو حاصل ہے‘ وہ صدر مملکت کو بھی نصیب نہیں ۔

مغربی ممالک میں معلم کو باقی تمام افرادپراس قدر فضیلت حاصل ہے کہ استاد کی گواہی کو معتبر و مستند سمجھی جاتی ہے۔جب کسی طالب علم کو نمایاں کامیابی ملتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے استاد کو سلام پیش کرتا ہے ۔ جبکہ ہمارے یہاں طلبہ کامیابی کو اپنی کمال سمجھتے ہیں اور ناکامی پر استاد کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔وہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں جگہ خالی نہ ہو تو بھی استاد کے لئے گنجائش نکالی جاتی ہے جبکہ اِدھر تھانے دار پر تعیش گاڑیوں میں اور معلم رکشوں میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوتا ہے۔

وہاں ذہین و فطین انسان شعبہ معلمی سے وابستہ ہوتا ہے اور اِدھر بے روز گار اور فارغ لوگ اس شعبے سے منسلک ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔عظیم فاتح سکندرِ اعظم بھی اپنے استاد ارسطو کے سامنے نظریں جھکائے کھڑا رہتا تھا۔ آج لوگ بدل گئے، زمانہ بدل گیا،رسم و رواج ، طور طریقے بدل گئے۔ اب تو شاگردوں کا ادب استاد کرتے ہیں۔کہا جاتا ہیکہ جرمنی میں اساتذہ کو زیادہ تنخواہیں دی جاتی ہیں‘ جس پر اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا جس پر جرمنی چانسلر نے جواب دیا کہ ” میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کروں جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا۔


پاکستان جیسے مرعوب معاشرے میں سب سے کمزور ، مجبور اور مظلوم طبقہ اساتذہ ہیں۔قوم کے معمار کو کمتر سمجھا جاتا ہے ۔ کہیں پرمعلم کے حقوق کی بات نہیں ہوتی ہے۔جس کی وجہ حکومتوں کا اس مقدس شعبے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دینا ہے۔دوسری جانب خود اساتذہ بھی برابر کے شریک ہیں۔آجکل گلی کوچوں میں ٹیوشن سنٹرز اور تعلیم برائے فروخت کے رجحان نے معلم کے وقار کو یکسر کم کردیا ہے۔

اسلام نے معلم کو جو معیار دی تھی‘جس کا وہ مستحق تھااسے حاصل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ایک معلم آ ج کے اس پر آشوب دور میں بھی اپنے اندر عملی کردار،صبرو برداشت، اخلاص،احساس ذمہ داری،قول و فعل میں مطابقت ،غصہ پر قابوجیسی اعلیٰ صفات پیدا کر کے نہ صر ف ایک مثالی معلم بن سکتا ہے ‘ بلکہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی پا سکتا ہے۔اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اساتذہ کی عزت و تکریم کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔

یوم معلم کی نسبت سے اساتذہ کے مسائل حل کرکے انہیں باعزت مقام دینے کے لیے اقدامات کرنے ہونگے۔اورہمارا معاشرہ معاشی عدم توازن کا شکار ہوچکا ہے ۔ اس معاشی عدم توازن کے نظام کا سدباب کر کے اساتذہ ، علماء اور محققین کی آمدنی میں اضافہ کر کے ان کی معیار زندگی بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستان دنیا کی عظیم اور مہذب اقوام کی صفِ اول میں کھڑا ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :