مادری زبان میں تعلیم اور حائل رکاوٹیں

پیر 22 فروری 2021

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

مکرمی! الله رب العزت نے انسان کو زبان کی نعمت سے نواز کر باقی مخلوقات سے ممتاز کر دیا ہے۔زبان اظہارِ خیال اور پیغام رسانی کا مئوثر ترین ذریعہ ہے اور یہ ایک مُسلّمہ حقیقت بھی ہے کہ انسان اپنی مادری زبان سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ تعلیم بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی سفارش کرتے ہیں۔جب بچہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو علم رٹ کر نہیں بلکہ سمجھ کر ازبر کرتا ہے۔

دوران تدریس بوریت کے بجائے بشاشت محسوس کرتا ہے۔کمرہ جماعت میں اجنبیت کے بجائے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔کسی بھی پیچیدہ مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ایسی صورت میں تعلیم کا اثر دیرپا ہونے کے ساتھ تخلیقی صلاحیتیں بڑھ جاتیں ہیں۔فہم و فراست،عقل و دانش،حکمت و دانائی کے دریچے کھل جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اسلام نے بھی ایک بچے کی اولین درسگاہ ماں کی گود کو قرار دیا ہے۔

گویا سیکھنے سکھانے،پڑھنے پڑھانے کے لیے مادری زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔
مادری زبانوں کی اہمیت،تحفظ اور ان کی بقا کے لیے ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے بلند و بانگ دعوے بھی کرتے کیے جاتے ہیں'مگر عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کئی مادری زبانیں متروک ہو کر ان کی تعداد میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔

ہم روایتی طریقے سے بچے کو تعلیم دلانے پر مجور ہو جاتے ہیں۔جب بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے تو اس کی مادری زبان چھن جاتی ہے اور غیر ملکی زبانیں مسلط کی جاتی ہیں۔موٹی چوڑی کتابیں اس کے سامنے رکھ دی جاتی ہیں اور وہ زبانیں بچے کے لیے پہاڑ بن جاتیں ہیں۔جس سے بچے کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کی کارکردگی قابل ستائش نہیں ہوتی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں کم و بیش 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

کیا پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے'تمام بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ممکن ہے؟کیا ہمارے پاس ایسے ماہرین ہیں جو بچوں کے لیے ان کی مادری زبان میں نصاب ڈیزائن کر سکیں؟کیا ایسے تجربہ کار اور ٹرینڈ اساتذہ ہیں' جو بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی اہلیت رکھتے ہوں؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب فالحال نفی میں ہے۔

اس کو لاگو کرنے کے لیے انتظامی طور پر ہمارے پاس کتابیں اور ماہر اساتذہ ہونے چاہیئں اور یہ خاصا مشکل مرحلہ ہے۔کیونکہ یہاں تو قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے کئی قراردادیں منظور کرنے کے بعد بھی ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے'تو ہر بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دینا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔اگر ہم مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے خواہاں ہیں تو ہمارے ماہرینِ تعلیم اور دانشور حضرات کو طویل المدتی تعلیمی پالیسی بنا کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ آنے والے وقتوں میں اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنایا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :