کرپشن بے لگام, آخر کیوں..؟

جمعرات 3 اکتوبر 2019

Jaffar Tarrar

محمد جعفر تارڑ

یہی تو لے دے کے میرا بزنس چلتا ہے
تمہی کہو کہ میں کیوں اس سے توڑ دوں ناطہ
کروں گا کیا جو کرپشن بھی چھوڑ دی میں نے
او مجھے تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا...
بدقسمتی سے آجکل ہمارا حال اس شعر سے مختلف نہیں ہے کیونکہ ایک کرپشن ہی تو ہے جو ہم میں سے ہر شخص ایمانداری سے کرتا ہے. کرپشن کسی بھی ملک یا معاشرے میں تب جنم لیتی ہے جب وہاں کے حاکم نااہل, بددیانت اور غافل ہوں.

جب سوچ کا دائرہ کار صرف اپنی ذات تک محدود ہوجائے اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جانے لگے اور کرپشن عروج تب پاتی ہے جب وہاں کی عوام بے حسی, کاہلی اور اپنے حق سے تغافل نظر آ رہی ہو. ہمارا گلشن تو عرصہ دراز سے اس موذی مرض میں مبتلا ہے جو ایک فرد سے دوسرے فرد تک پھیلتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)


بانی پاکستان نے کرپشن کی بڑی وجہ جاگیردار طبقے کو قرار دیا جو ہمارے سیاسی نظام پر قابض ہے.

لیکن موجودہ دور میں ہر طبقے کا ہر فرد کرپشن کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنے کی کوشش کرتا ہے اوپر سے لے کر نیچے تک, ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کر رہا ہے کچھ پردے کے پیچھے ہوتے ہیں تو کچھ سربازار. اقرباپروری ہو یا رشوت ستانی ہر کوئی اپنی اوقات کے مطابق اپنے ہاتھ رنگتا ہے. جہاں حکمران طبقہ اس بدعنوانی کا ذمہ دارہے تو وہاں ہم خود کو بحثیت قوم, خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے.

بہت سارے بدعنوان کرداروں کو ہم نے بھاگنے کے لیے محفوظ راہ مہیا کی ہے. آج ریاست پاکستان میں ہر بندہ اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے. عصر حاضر میں پاکستان کی ترقی سب سے زیادہ بدعنوانی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے. 
تبدیلی سرکار کو زیادہ تر ووٹ اس کرپشن کے خاتمے کیلیے ملا تھا مگر افسوس تبدیلی سرکار فی الحال اپنا وعدہ وفا کرتی نظر نہیں آرہی.

لیکن بدقسمتی سے آج ہمارا کوئی بھی ادارہ اس لعنت سے پاک نہیں ہے. کرپشن کا بازار گرم ہے ہر کوئی اپنی دھاڑی لگانے میں مصروف ہے. ہمارا محکمہ پولیس تو کرپشن کے لحاظ سے سرفہرست ہے. صحت کا ادارہ ہو یا تعلیم کا, عدالتیں ہوں یا وکالت کا محکمہ, انتظامی امور ہوں یا عمل درآمدگی ہو, ہمارے میڈیا ہاؤسز یا صحافت ہو سب کے سب اس سراپ سے محفوظ نہیں ہیں.

کرپشن پاکستان کو دھیمک کی طرح چاٹ رہی ہے جس کے آثار فوری نظر نہیں آتے مگر بعد میں مہنگائی اور لاقانونیت کی صورت میں اس کا اثر نظر آتا ہے.
آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مالی کرپشن کے ساتھ ساتھ اخلاقی بدعنوانی کا بھی شکار ہو چکے ہیں سفارش جیسا زہر ہماری رگوں میں سرایت کر چکا ہے.آج ہمارے معاشرے میں جتنا کوئی بدعنوان ہو گا اتنا ہی عزت کے قابل سمجھا جائے گا.

کسی بھی برائی کے خلاف جہدوجہد کا انحصار معاشرے کے اخلاقی معیار پر ہوتا ہے مگر ہم تو بداعمالی اور بد عنوانی پر بھی خود کو ملامت کرنے کی بجائے کامیابی کا برملا اظہار کرتے ہیں. پاکستان میں کرپشن کرنے والے کی ہمت, ذہانت اور طریقہ کار پر داد دی جاتی ہے جہاں ہم کرپشن کو گالی سمجھتے ہیں تو دوسری طرف ایسے ذرائع استعمال کر کے آگے سے آگے جانے کی خواہش دل میں پال لیتے ہیں.
پاکستان کرپشن کی دلدل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے.

ہر جگہ پر کرپشن جاری ہے مگر خود کو کوئی بھی بدعنوان ماننے کو تیار نہیں. آج شیطان نے انسان کو حرص اور لالچ کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے برائی کو کوئی بھی بدی سمجھنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں آج ہر کوئی ذاتی تسکین کے لیے دوسروں کا حق مار رہا ہے. رشوت اور رشوت ستانی نے کینسر کی طرح ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. حالیہ کچھ عرصے میں کرپشن کے بڑے سکینڈل سامنے آئے مگر پھر بھی ہم لوگ تقسیم دکھائی دئیے، کوئی بھی فرد اپنے من پسند لیڈر کو کرپٹ ماننے کے لیے تیار نہیں چاہے اس لیڈر کے بیڈروم یا باتھ روم پر کروڑوں کی رعنائیاں کروائی گئی ہوں اور قوم کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نا ہوں لیکن لیڈر پھر بھی ہمارا کرپٹ نہیں۔
نواز شریف صاحب کا کرپشن کا بڑا سکینڈل پانامہ پیپرز کی صورت میں نظر آیا, تو کوئی بھی ن لیگی میاں صاحب کو بے شمار ثبوتوں کی بنا پر بھی گناہگار ماننے کو تیار نہیں.

آصف علی ذرداری کے جیالوں کا بھی حال اس سے مختلف نہیں ان کی نظر میں ذرداری صاحب سے زیادہ کوئی معصوم نہیں. تو دوسری طرف ہمارے تبدیلی والے بھائی جو دوسروں کو اندھی تقلید کے طعنے دیتے ہیں مگر خود ایسی ہی منزل کے مسافر ہیں جب جہانگیر ترین صاحب اور علیم خان صاحب کی کرپشن کی داستان سامنے آئی تو ان کے پیروکار نے ان کی حمایت کا خوب حق ادا کیا.
تبدیلی سرکار میں ہر ادارے میں کرپشن عروج پر ہے.

بدعنوانیوں کے نرخ بڑھا دئیے گئے ہیں اب خدا بہتر جانتا ہے کہ کچھ کالی بھیڑیں تحریک انصاف کی ناکام کے لیے سرپیر مار رہی ہیں یا خود تحریک انصاف والے اپنی نااہلیوں کی وجہ سے اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔
تمام ادارے کرپشن سے آلودہ نظر آ رہے ہیں, ہر جائز کام کے لیے بھی افسران کے ہاتھ گرم کیا جا رہے ہیں. جب کسی معاشرے میں کرپشن صرف برائے نام جرم ہو تو وہاں دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ غربت جنم لیتا ہے اور غربت کی وجہ سے پھر مختلف جرائم سر اٹھانے لگتے ہیں۔میرے خیال سے کرپشن حالیہ کچھ عرصے سے دہشت گردی سے بھی بڑا مسلہ بن چکی ہے.

بانی پاکستان محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو فرمایا'' کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہے اسمبلی کو اس کے خاتمے کے اقدامات کرنے ہوں گے'' لیکن افسوس جن نے کرپشن ختم کرنی تھی وہ ہی اسمبلی میں بیٹھ کر کرپشن کے نئے نئے طریقے متعارف کروا رہے ہوتے ہیں. غربت, مہنگائی اور بیروزگاری کی بڑی وجہ ہمارا کرپٹ نظام ہے. رشوت لینے اور دینا والا دونوں گناہگار ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں, لوگ بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں مگر ذخیرہ اندوزی کرنے والے کا کوئی حساب کرنے والا نہیں۔اگر ہم اپنے ملک پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر دیکھنا چاہتے ہیں تو کرپشن کے خلاف جنگ لڑنا ہو گی اور اس جنگ میں ایمانداری, محنت اور خلوص نیت ضروری ہے۔
پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے اخلاقی اقدار کو فروغ دینا ہو گا.

اگر اب بھی ہم اس کرپشن جیسی لعنت پر خاموش رہے, اپنے گریبان میں نہ جھانکا اور کرپشن پر دوسروں کو ہی کوستے رہے تو ہم کبھی بھی عظیم قوم نہیں بن سکتے. بیشک کرپٹ لوگوں کا کڑا احتساب بہت ضروری ہے لیکن کیا ہم نے کبھی اپنا خود احتساب کیا؟اگر کرپشن کی یہ روایت چلتی رہی, تو کرپشن دن بدن بے لگام ہوتی جائے گی اور ہمیشہ لازوال رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :