آگے کنواں، پیچھے کھائی

جمعہ 25 اکتوبر 2019

Jaffar Tarrar

محمد جعفر تارڑ

پاکستان کی سیاسی  تاریخ پر نظر دوڑائی جاۓ تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی تاریخ بار بار دہرائی جاتی ہے. اس تاریخ نے کبھی زیادہ عرصہ لیا تو کبھی کم, مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں ہمارے علما ہوں یا سیاستدان سب نے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے دھرنا, مارچ, ناموس رسالت اور آزادی مارچ کی اصطلاحات متعارف کروائیں.

بدقسمتی سے پاکستان میں احتجاج کی سیاست کا آغاز تو 1953 سے ہی ہو گیا تھا جب پاکستان باقاعدہ طور پر سنبھل بھی نہیں پایا تھا . پھر یہ تاریخ وقفے وقفے سے دہرائی گئی . ایک دوسرے کو چت کرنے کے لیے کبھی لانگ مارچ تو کبھی دھرنے کا سہارا لیا گیا . آج بھی سیاسی منظر نامہ ایسا ہی ہے کہ مولانا صاحب جب عرصہ دراز کے بعد اقتدار جیسے نشے سے باہر آۓ تو آج مولانا صاحب کو اس سسٹم کی تمام خامیاں نظر آ رہی ہیں .

کبھی جمہوریت کو دھرنے سے خطرہ ہوتا تھا , جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے خدشات تھے. اسلام آباد کو جھتوں کے ہاتھ میں دینے کو گناہ سمجھتے تھے اور ان لوگوں کے خلاف حکومتی طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیتے تھے . مگر اب کن مجبوریوں نے آ گھیرا ہے کہ مولانا صاحب اسلام آباد میں دھرنے کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دے رہے ہیں . بڑے بڑے جھتوں کی صورت میں اسلام آباد پر یلغار کو پاکستان کوبچانے کے مترادف ہے .

ان نام نہاد کارکنان کے خلاف کسی طرح کی بھی طاقت استعمال کی گئی تو مولانا کی خاکی یونیفارم میں تیار فوج بھرپور جواب دے گی کیونکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے. اس بارات میں ساری اپوزیشن مولانا فضل و الرحمن کو دولہا قرار دے رہی ہے اور خود باراتی بنے ہوۓ ہیں .مگر حالات کی ستم ظریفی ہے مولانا صاحب کے ساتھ سسرال جانے کو کوئی تیار نہیں کیونکہ بلاول بھٹو نے مولانا صاحب کو تب ہی ہری جھنڈی دکھا دی تھی جب مولانا نے عمران خان کے خلاف مزہبی کارڈ کھیلنے کا عندیہ دیا تو بلاول نے صاف بات کہہ دی تھی کہ وہ کسی بھی سیاستدان کے خلاف مزہب کے نام پر نہیں کھیلیں گے اس طرح پیپلز پارٹی نے دھرنے میں مولانا کی کبھی اخلاقی مدد تو کبھی مالی حد تک معاونت کا وعدہ کیا .تو دوسری طرف ضمیر کے اسیر نے اپنے بھائی کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا اشارہ دیا تو چھوٹے بھائی جن کو وکٹ کے دونوں طرف کا کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل ہے.

دھرنے کے عین قریب آنے پر کمر کی درد نے ستانا شروع کر دیا تو بڑے بھائی کو چراغ تلے اندھیرا دکھائی دینے لگا. مولانا اپوزیشن کو ساتھ چلنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں کیونکہ مولانا شاید سمجھ رہے ہیں کہ ان کا دھرنا ناکامی کی طرف رواں دواں ہے. کیونکہ شہباز شریف نے بلاول بھٹو کے ساتھ ہی کنٹینر پر آنے کا عندیہ دیا ہے اور دوسرے درجے کی قیادت کے ساتھ اسٹیج پر  آنے سے صاف انکار کر دیا ہے کیونکہ شہباز شریف بخوبی آگاہ ہے کہ بلاول کبھی مولانا کے ساتھ نہیں چلے گا.

مولانا صاحب اپنی بارات میں باراتیوں کی کمی دیکھ کر کافی خوفزدہ ہیں اور پریشان ہیں کیونکہ نا تو مولانا صاحب دھرنے کا فیصلہ واپس لے سکتے ہیں اور نا ہی بلاول بھٹو اور شہباز شریف کے بغیر دھرنا دے سکتے ہیں . تو جیسے جیسے دھرنے کی اعلان کردہ تاریخ قریب آ رہی ہے تو یہ دھرنا پہلے آزادی مارچ میں تبدیل ہوا اور اب آزادی مارچ سے ایک یا دو دن کے جلسہ میں تبدیل ہونے جا رہا ہے .

لیکن ایک چیز طے ہے اگر یہ دھرنا ناکام ہوا تو حکومت مزید مضبوط ہو گی اور مولانا فضل و الرحمن  کی سیاست کسی کنواں کی طرف جاۓ گی. مولانا صاحب بزات خود کافی پریشان ہیں کیونکہ مولانا صاحب کے "آگے کنواں اور پیچھے کھائی  ہے" اسلام آباد نا گئے تو پھر بھی ناکام اور اگر جا کر ایک ہفتہ تک دھرنے دیتے ہیں تو پھر بھی ناکام. مولانا صاحب عمران خان کے دھرنے سے زیادہ مدت کے لیے دھرنا دینے کا اعلان کر چکے ہیں �

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :