کپتان کے ویژن کا جنازہ نکالا جا چکا ہے

ہفتہ 27 جون 2020

Javed Ali

جاوید علی

انسانی فطرت ہے کہ جب اسے پذیرائی ملنا شروع ہو تو وہ بعداوقات اپنی اوقات بھول جاتا ہے اور اپنے آپ کو گروہ, نسل یا قوم کا ہیرو یا لیڈر تصور کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کی خوشامد ہوتی ہے جسے وہ تعریف سمجھ کر اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے خواہ وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو طالب علم ہو یا استاد وغیرہ- انہی چند لوگوں کی لسٹ میں میرے کپتان عمران خان بھی شامل ہو چکے ہیں- انہیں کسی شخص نے ایک موقع پر مشورہ دیا کہ آپ اس اجڑتی قوم کی قسمت سنوار سکتے ہیں تو اس وقت کپتان ورلڈ کپ جیت چکے تھے اور کرکٹ کے شوقین لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت پیدا کر چکے تھے- کپتان الیکشن میں حصہ لینے اور پارٹی کی تشکیل کے بارے میں سوچنے لگے- اس وقت انہیں ان لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا جو پاکستان پپل پارٹی ( PPP ) اور پاکستان مسلم لیگ ( PMLN) سے نفرت کرتے تھے یا تیسری بڑی پارٹی کے حق میں تھے جو مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے تھے جن میں فرحت عباس شاہ, حسن نثار صاحب, سینئیر بیوروکریٹ روداد خان اور اوریا مقبول جان جیسے محب وطن تھے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے غریب عوام اور پاکستان کو خوشحال بنانے کے لیے اس شخص کا ساتھ دیا- 2013 تک تو بہت سے لوگ ان کی پارٹی میں شامل ہو چکے یا سپورٹ کر رہے تھے- اس دوران مراسم غیر سیاسی قوتوں سے بڑے اور نتیجہ 2018 کے الیکشن میں جیت کی صورت میں سامنے آیا لیکن ان مراسم نے کپتان کے وژن کو کسی گہری کھودی ہوئی قبر میں دفن کر دیا- وہ لوگ, دانشور, سول سرونٹ جنہوں نے انہیں ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے والا سمجھا تھا آہستہ آہستہ اپنی راہیں الگ کرتے چلے گئے جن میں وہ نوے سالہ بابا روداد خان جو 2014 میں کنٹینر پر کپتان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا تھا کئی گم ہی ہو گیا جب اس سے پوچھا تو جواب ملا میں تو اس لۓ ان کا حامی تھا کہ میرے تجربے سے کپتان کو پاکستان کے عوام کی خدمت کرنے میں موقع زیادہ ملے گا لیکن اسے میری ضرورت ہی نہیں- ان کے مطابق کپتان کا بیڑا غرق کرنے کی سب سے بڑی وجہ کپتان کی انا اور نااہلی ہے- اسی انا نے ملک کا ستیاناس کیا ہے-
میرے کپتان شائد اسی وجہ سے بھول گۓ کہ میرے وطن کے لئے اچھا کیا اور برا کیا ہے انہوں نے اقتدار کی خاطر اپنے وژن کے ساتھ ان مخلص غیر سیاسی لوگوں کی بھی قربانی دے دی- ان لوگوں کی آواز کچھ یوں ہے کہ
ہم نے دیکھے وہ خواب
جو خواب ہی نہ تھے
ہم نے اس گلستاں سے توڑنے چاہے گلاب
جس گلستاں میں گلاب ہی نہ تھے
اکیلے بیٹھ کر سوچا تو دیا ذہانت نے جواب
جتنا تم سمجھے اتنے وہ لاجواب ہی نہ تھے
میرے کپتان کے ساتھ جو نئے لوگ ملے جن کا کوئی وژن ہی نہیں تھا جنہیں عرف عام میں "لوٹے" کہا جاتا ہے جو کبھی مشرف کے ساتھ  دیکھے گئے کبھی ن لیگ میں اور کبھی پی پی پی میں اور آج پاکستان تعریک انصاف میں دیکھے جاتے ہیں انہی لوگوں نے کپتان کو ایسا بچہ بنا دیا جو گھر سے صاف ستھرے کپڑے پہن کے باہر گلی میں نکلا اور گلی کے کیچڑ میں اپنے آپ کو سمیٹتا اور گندگی سے بچاتا جا رہا ہو اور دوسرے بچے دوڑتے ہوۓ آئیں اور چھینٹیں پڑنے سے اس کے کپڑے کافی زیادہ گندے ہوگئے- اسی طرح میرے کپتان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے- انہوں نے خود کو اس گندگی سے بچانے کی کوشش تو کی لیکن اس بچے کی طرح بچ نہ سکے- اب کپتان ساری زندگی اس گندگی کو اتارنے کی کوشش کریں گے لیکن یہ اترنے والی نہیں-
اب بھی کپتان خود کو لیڈر یا قومی ہیرو سمجھتا ہے شائد  ان کو کسی نے بتایا نہیں کہ ان کی ساخت یا (popularity) ختم ہو چکی ہے لیکن کپتان کو اس کا اندازہ تک نہیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :