ایک نوجوان کی سچی اور سبق آموز داستان

بدھ 30 ستمبر 2020

Javed Ali

جاوید علی

یہ گزشتہ ہفتہ کی بات ہے کہ جب سرگودھا یونیورسٹی کے رزلٹ کا اعلان کیا گیا تو سب طالبعلموں کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی اور سب نے اپنا رزلٹ دیکھنا شروع کیا تو بہت سے طالبعلموں کے چہرے مرجھاۓ ہوۓ دیکھائی دینے لگے- میں بھی اسی کشمکش میں پریشان بیٹھا اپنے مارکس کو بار بار دیکھ رہا تھا اتنے میں مجھے میرے اک شریف النفس دوست کی کال موصول ہوئی اور خوشخبری دی کہ الحمداللہ میں نے ماسٹر ہائی فرسٹ ڈویژن کے ساتھ پاس کر لیا- کال موصول ہونے کے بعد میں اس کے گھر پہنچا- گھر میں سب کے چہرے خوشی سے مسکرا رہے تھے اس کی والدہ, ہمشیرہ اور والد کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی- میں نے سلام عرض کیا اور اپنے دوست کے پاس جا بیٹھا, اسے مبارکباد دی اور گپ شپ ہونے لگی اتنے میں اس کی والدہ بھی ہمارے پاس تشریف لائی اور سامنے والی چارپائی پر جا بیٹھی- انہوں نے مجھے اپنے بیٹے کی کہانی سنانا شروع کی- انہوں نے مجھے بتایا کہ آج سے اٹھارہ انیس سال قبل جب ہم جہاں آ کر آباد ہوۓ تو تیرا بھائی سکول نہیں جاتا تھا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اسے گوبر سے تھاپیاں بنانے پر لگاتی ہوں- صبح میں نے اسے اس کام پر لگا دیا تو اک استاد کا وہاں سے گزر ہوا جس نے اسے احساس دلایا تو اس نے صبح سے اسی استاد کے ہاں سکول جانا شروع کیا اس وقت پچیس روپے پرائیویٹ اکیڈمی فیس تھی- اس نے پہلے سال میں ہی دوم جماعت میں جا بیٹھا- اس کے بعد یہ صبح سویرے اٹھتا اور نہاتا, اور خود ہی رات والی روٹی گرم کرتا اور کھا کر خاموشی سے سکول چلا جاتا کبھی میں اسے اک روپیہ یا دو دے دیا کرتی جس سے یہ پنسل وغیرہ خرید لیتا یا کوئی چیز کھانے کے لئے لے لیتا- اسی طرح اس نے پانچ جماعتیں پاس کیں اور واپس آ کر بکریاں چراتا اور میرا ہاتھ بھی بٹاتا- پانچویں کے بعد اس نے  سکول شہر جانا شروع کیا تو پہلے سے بھی جلدی اٹھتا اور سکول چلا جاتا.......

الحمداللہ آج سولہ پاس کر گیا اور ہمارے رشتہ دار گھرانوں میں میرا ہی بیٹا ہے جس نے اک روایتی لائن کراس کی جو آٹھویں اور دسویں کلاس تک  تھی-
میں اسے اپنے بچپن سے جانتا ہوں جب یہ سکول سب سے پہلے جایا کرتا کبھی بھی دیر سے سکول نہیں گیا اور سال میں مشکل سے شاید ایک چھٹی ہوتی- میں نے اسے سکول میں اپنی باری پر جھاڑو لگاتے اور اپنی کتاب پر دھیان دیۓ ہی دیکھا- میں نے اسے تقریبا پندرہ سولہ سال میں اک دفعہ دوم جماعت میں شکایت لگاتے دیکھا جس پر استاد نے اسے دھپڑ لگایا- تب سے آج تک اس نے کوئی شکایت نہیں لگائی- میں نے اسے سکول میں اک بار مار پڑتے دیکھا- کالج میں اس کے رزلٹ نے نہ صرف سٹوڈنٹ کو بلکہ ٹیچرز کو بھی حیرت میں ڈال دیا گیارویں فیل اور بارویں میں آٹھ سو سے بھی زیادہ نمبر حاصل کیئے- پھر اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ہوسٹلائز ہو گیا جہاں اس کا پہلے دو سمسٹر کا تجربہ کوئی خاص اچھا نہ رہا تو اک دن مجھے کہتا ہے بھائی بس! اب میں نہیں پڑھوں گا- میں نے اسے دلاسہ دیا یار سنبھل جا کچھ نہیں ہوتا خیر وہ تو سمجھ گیا لیکن اس کے دوست نے میری بات نہ مانی- چوتھے سمسٹر میں مجھے کہتا ہے یار میں اپنے آپ سے چیلنج کرتا ہوں کوئی ٹیچر مجھے فیل نہیں کر سکتا- میں نے کہا وہ کیسے, کہنے لگا یار میں اتنی محنت کرتا ہوں ٹیچر مجھے سیشنل مارکس نہ بھی دیں تو پھر بھی میں پاس ہو جاؤں گا- خیر اس نے ہمت نہیں ہاری اور محنت کرتا رہا, جتنی بھی فضول سرگرمیاں تھی اس میں حصہ نہیں لیا- آخری سمسٹر میں مجھے کہتا ہے کہ اون لائن پیپر ہیں اس بار لائق اور نالائق کا فرق واضح ہو جاۓ گا کیسے یہ ٹاپر پیپر کو خوش خط بنا کر نمبر حاصل کرتے رہے ہیں- اس نے ثابت کیا کہ جب انسان کوئی چیلنج قبول کر لیتا ہے دنیا کی کوئی چیز بھی اسے ہرا نہیں سکتی-
اس نے خود اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور بتایا تبدیلی کسے کہتے ہیں ورنہ وہ علاقہ جہاں ٹو جی ڈیٹا سروس مہیا نہیں ہوتی, جدید سہولیات سے دور بیٹھے, جہاں ٹیلیویژن سہولت موجود نہ ہو, کوئی بجلی کی سہولت نہ ہو روڑ کی سہولت نہ, بچوں کو صبح تین کلومیٹر پیدل چل کر سکو جانا ہو, گھر کے کام کرنا ہوں کون ہے مائی کا لال جو آج ان حالات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :