اپنی تلاش

بدھ 18 مارچ 2020

Javed Iqbal Bhatti

جاوید اقبال بھٹی

ہم تمام لوگ پتا نہیں کن سوچوں اور خیالوں میں محو و گُم رہتے ہیں کہ ہم خود کو بھی اور اپنے اندر رہنے والے انسان کی بھی تلاش نہیں کر سکتے۔ آج کل لوگوں کی سمجھ ہی نہیں آتی پتا نہیں وہ کس دنیا میں جی رہے ہیں جن کو اپنی تلاش بھی نہں کرنی آتی۔ ہمارے پاس آجکل اپنی ذات اور اپنے آپ کے لئے بھی وقت نہیں ہے۔ مغربی مفکر ایڈیسن نے کہا ،”جس کو اپنے ٹیلنٹ کا پتا چل جاتا ہے وہ غلامی برداشت نہیں کر سکتا۔

“ پاکستان کے عوام اگر خود شناس ہوتے تو کرپٹ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے محکوم اور یرغمال کبھی نہ بنتے۔ بھارت کے عظیم بزنس مین پریم جی نے کہا،”میں اور میری کمپنی کبھی پیسے کے پیچھے نہیں بھاگتے ہم ہمیشہ ساکھ کے پیچھے بھاگتے ہیں جس کی وجہ سے پیسہ ہمارے پیچھے بھاگتا ہے۔

(جاری ہے)

“چھوٹے انسانوں کی تقدیر دوسرے کے ہاتھوں پر لکھی ہوتی ہے جبکہ بڑے انسان کے ہاتھ پر زمانے کی تقدیر لکھی ہوتی ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی وجہ سے کتنے ہی انسانوں کی زندگی بدل گئی کیوں کہ ان کے ہاتھ پر زمانے کی تقدیر لکھی ہوئی تھی جبکہ تمام جہانوں کی تقدیر ہمارے آقا حضور اکرم ﷺ کے ہاتھ پر لکھی ہوئی ہے کیونکہ آپﷺ جہانوں کیلئے رحمت ہیں۔اپنی تلاش کے بعد اس سوال پر غور کریں کہ ”میں اپنی صلاحیتوں کے ذریعے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہوں ۔

“جو انسان دُنیا میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور خوشی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے اس کیلئے لازم ہے وہ خوش کو تلاش کرئے۔ قدیم یونانی دانش وروں اور اولیائے کرام کی تعلیمات میں یہی پیغام ہے کہ اپنی تلاش سے ہی دُنیا اور آخرت سنور سکتی ہے ۔ہم یہ گلہ کرتے رہتے ہیں کہ نیکی کا زمانہ نہیں ہے لیکن یاد رکھیے کہ کسی زمانے میں نہ نیکی مرتی ہے نہ بدی ختم ہوتی ہے۔

اہم سوا ل یہ ہے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہیں۔ ہمارے عمل سے کتنے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ ہماری نصیحتیں دوسروں کو متاثر نہیں کرتیں۔ معاملہ فہمی یا حُسن اخلاق دوسروں کو تبدیل کرتا ہے ۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مومن کے نامہ اعمال میں قیامت کے روز سب سے وزنی شے اس کے حُسن اخلاق ہوں گے۔ کامیاب زندگی کیلئے ترجیحات کا تعین لازم ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی شے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

کوئی کچھ چاہتا ہے ،کوئی کچھ ڈھونڈ رہا ہے۔ انسانوں کے ہجوم میں آرزوؤں کا بھی ہجوم ہے۔ دشمن، دشمن کی تلاش میں ہے، اور دوست، دوست کی جستجو میں۔ کائنات کی تمام اشیاء کا ہمہ وقت مصروف سفر رہنا کسی انوکھی تلاش کا اظہار ہے۔ آرزو کا انجام شکست آرزو ہو، تو بھی یہ ہستی کی دلیل ہے۔ سورج تاریکی کے شکار کو نکلا ہے اور تاریکی سورج کے تعاقب میں ہے۔

دریا کو سمندر کی لگن ہے اور سمندر کو دریا بننے کی خواہش مضطرب کر رہی ہے۔ ہر چیز اپنے اپنے مدار میں اپنی خواہش اور تلاش کے حصار میں ہے۔ تلاش متحرک رکھتی ہے اور حرکت راز ہستی ہے۔ تلاش ہی انسان کی جبلت ہے۔ یہ اس کا اصل ہے یہ اس کا خمیر ہے۔ یہ ا س کی سرشت ہے۔ جسے اور کوئی تلاش نہ ہو، وہ اپنی تلاش کرتا رہتا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے ؟ وہ کب سے ہے ؟ اوروہ کب تک رہے گا؟ وہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ وہ کونسا جذبہ ہے جو اُسے محرومیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندہ رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

انسان اس بات سے آگاہ ہونا چاہتا ہے کہ یہ کائنات اور نظام کائنات کس نے تخلیق فرمایا؟ تخلیق حسن میں کیا حسن تخلیق ہے ؟ یہ سب جلوے کس کے ہیں؟ کون ہے ااس پردہ رعنائی کے اندر؟ اور کون ہے اس پردے سے باہر؟ اور یہ پردہ کیا ہے ؟ تلاش کا سفر اتنا ہی قدیم ہے ، جتنا ہستی کا سفر۔ ہر پیدا ہونے والے کے ساتھ اس کی تلاش بھی پیدا ہوتی ہے۔ انسان آگہ ہو یا بے خبر، وہ ہمیشہ رہین آرزو رہتا ہے۔

زندگی کی آرزو و دراصل کسی کی جستجو ہے ۔ انسان کو ہمہ وقت ایسے احساس ہوتا ہے ، جیسے ہو کچھ کھو چکا ہے۔ وہ کچھ بھول گیا ہے۔ اسے چھوڑی ہوئی منزل متلاش بناتی ہے ۔وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاس کوئی قدیم راز تھا، جو گم ہو گیا۔ اس کا بے ربط ماضی اسے کسی درخشندہ مستقبل سے محروم کر گیا۔ شاید وہ دنیا کے عوض آخرت کا سوداکر بیٹھا۔ انسان غور کرتا ہے اور جوں جوں غور کرتا ہے ، ایک شدید پیاس کی طرح ایک نامعلوم تلاش اسے جکڑ لیتی ہے ۔

اس تلاش میں مفر نہیں۔انسان کی تلاش ہی اس کا اصل نصیب ہے۔ یہی اس کے عمل کے اساس ہے ۔ یہی تلاش اس کے باطن کا اظہارہے۔ یہی اس کے ایمان کی روشنی ہے ۔ تلاش انسان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی بچھو اسے اندر سے ڈس رہا ہے۔ وہ بھاگتا ہے، دوڑتا ہے ، بے تاب و بیقرار اس تریاق کی تلاش میں جو اس زہر کا علاج ہے۔ جب وہ مشکل سامنے آتی ہے ، اسے قرار آ جاتا ہے ۔

ہر چند کہ اسے پہلی بار دیکھا ہے وہ اسے پہچان لیتا ہے۔ کچھ انسان صداقت کی تلاش کرتے ہیں ۔یہ ساری کائنات ہی صداقت پر مبنی ہے، لیکن صداقت کا اپنا الگ وجود نہیں۔ صداقت، صادق کی بات کو کہتے ہیں۔ صادق کا قول صداقت ہے۔ اس صداقت کی پہچان اپنی صداقت سے ہی ہے۔ اپنی صداقت اعماد ذات صادق ہے۔ کسی جھوٹے انسان نے کبھی کسی صادق کی تلاش نہیں کی۔ ہر انسان کوئی نہ کوئی چیز تلاش کرتا رہتا ہے، کوئی اللہ تعالیٰ کی تلاش کر رہا ہے تو کوئی کسی کی ۔

اس طرح تمام انسان اس دُنیا میں جتنے بھی ہیں کسی نہ کسی تلاش میں جاری ہیں۔ اسی طرح آجکل کے سائنس دان نئی ترقی کی منازل کی تلاش میں ہیں اور آج کل ڈاکٹرز کرونا وائرس اور ڈینگی وائرس جیسی مہلک امراض کی تلاش کر رہے ہیں ۔ کوئی چاند پہ کمند ڈالنے کی تلاش میں ہے تو کوئی کسی کے سبقت لے جانے کی تلاش میں ہے۔ گویا یہاں ہر کوئی اپنی اپنی تلاش میں جاری ہے۔

صداقت کا سفر ، حقیقت کا سفر ہے ۔صادق کی تقرب حق کی تقرب ہے۔ صادق کی محبت حق کی محبت ہے ۔ صادق کی رضا ،صداقت کی سند ہے ۔ حقیقت کا وصال ہے۔ آئینہ صداقت و جمال حقیقت نظر آ سکتا ہے۔ اسی کی تلاش گوہر مقصد کی تلاش ہے۔ اور یہی تلاش حاصل ِ ہستی ہے اور یہی حاصل عین ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے ہر ہم سب کو اپنی پہچان کرنے ، اللہ تعالیٰ کی ذات کی پہچان کرنے اور اس کی بنائی ہوئی تمام کائنات اور اس کی تمام مخلوقات پر ایمان لانے، یقین کرنے، صبر و شکر کرنے، حق و سچ بولنے، جھوٹ نہ بولنے اور ایمان دار و صادق بننے کی ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :