خدارا پاکستان سے پیار کیجئے

ہفتہ 19 جون 2021

Javed Malik

جاوید ملک

ہم لوگ جب پاکستان کے کسی بھی ہوائی اڈے سے کسی بھی دوسرے ملک جانے کے لیے جہاز میں بیٹھتے ہیں تو بینکاک پہنچ کر ہم تہذیب یافتہ ہو جاتے ہیں-یہاں تک کہ ٹافی کا ایک ریپر بھی باہر نہیں پھینکتے- دوسرے ملکوں میں قیام کے دوران ہر ضابطہ اور قانون پر عمل کرتے ہیں لیکن جیسے ہی واپسی کے لیے پاکستان پہنچتے ہیں تو پھر ویسے کے ویسے-ایسا کیوں ہے کیا یہ کام بھی ہماری گورنمنٹ نے کرنا ہے یاد رکھیں تبدیلی کی کتاب کا پہلا صفحہ آپ خود ہی ہیں-
پاکستان میں رہتے ہوئے ہم میں سے اکثر  قانون پر اس لئے عمل نہیں کرتے کیونکہ ہماری سوچ ہوتی ہے سب لوگ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں- اس لیے ایک میرے کرنے سے کیا ہو جائے گا- پاکستان میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں- یہاں تک کہ بڑے شہروں میں بڑی بڑی کچرا ٹرالیاں کھڑی ہوتی ہیں- لیکن اس کے باوجود کچرا باہر سڑک پر یا ٹرالی کے اردگرد نظر آتا ہے- یہ سب کون کرتا ہے -پاکستان میں جو جتنا بڑا آدمی ہوگا وہ اتنی بڑی قانون کی خلاف ورزی کرے گا -اگر آدمی بڑا ہے اور خلاف ورزی چھوٹی کر رہا ہے تو اس کو کوئی بڑا آدمی تصور نہیں کرے گا -پاکستان میں بڑا آدمی ہونے کی چند بڑی نشانیاں بڑا آدمی کبھی بھی پاکستان میں کسی بھی بینک سے چھوٹا قرض نہیں لے گا -وہ ہمیشہ کروڑوں اور اربوں میں قرض  لے گا اور مزے کی بات ہے بینک اس کو خوشی خوشی قرض دے بھی دے گا- وہ زیادہ قرض اس لیے لیتا ہے-کیونکہ اس کو پتہ ہے اس نے واپس نہیں کرنا اور کیونکہ وہ بڑا آدمی ہے- اس لیے پاکستان کا کوئی قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا -اسی طرح پاکستان میں بڑا آدمی چھوٹے پیمانے کی کرپشن نہیں کرے گا بڑے پیمانے کی کرے گا -کیوں کہ اس کو پتا ہے وہ بڑا آدمی ہے اور پاکستان کا قانون اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے سوچتا رہتا ہے- پاکستان میں بڑا آدمی پاکستان کو کھانے کے لئے استعمال کرتا ہے اس کی منزل پاکستان نہیں ہوتی- پاکستان میں بڑا آدمی کبھی خود گاڑی نہیں چلائے گا عوام میں اکیلا نہیں جائے گا- کسی تقریب میں وقت پر نہیں پہنچے گا کسی ٹریفک سگنل پر نہیں رکھے گا- کبھی بھی اپنے سے چھوٹے کو انسان نہیں سمجھے گا اور اس کو سچی بات نہیں بتائے گا- پاکستان میں بڑا آدمی کبھی بھی ایک بیوی سے خوش نہیں ہوتا -یہ میرے نزدیک پاکستان میں بڑے آدمیوں کی چند بڑی خوبیاں ہیں- جن کو وہ اپنی خوبی تصور کرتے ہیں -جس کا نقصان پاکستان کی 22 کروڑ عوام ہر گزرنے والے دن کے ساتھ برداشت کرتے ہیں- مجھے مختلف ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا میں اکثر سوچتا ہوں پاکستان کے اندر گندگی زیادہ کیوں ہے پاکستان کے واش روم صاف کیوں نہیں ہوتے- حالانکہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور اپنی نجاست صاف کرنے کے لئے پانی کا استعمال بھی کرتے ہیں- لیکن اس کے باوجود ایسا کیوں ہے پاکستان کے عوامی واش روم کے اندر پوری پوری فون ڈائریکٹری آپ کو ملے گی- گندے گندے پیغامات دروازوں اور دیواروں پر لکھے ہوئے ملیں گے -یہ سب پاکستان کا کون سا چہرہ عوام کو دکھا رہے ہیں خدارا پاکستان سے محبت کیجئے پاکستان کا خوبصورت چہرہ دنیا کو دکھائے- ہم میں سے ہر شخص اگر اپنی ذمہ داری کو محسوس کر لے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے- ہم یہ فیصلہ کرلیں ہم نے اپنے حصے کا کام خود کرنا ہے -میں یقین سے کہتا ہوں پاکستان تبدیل ہو جائے گا -پاکستان میں تمام برائیوں کی جڑ صرف یہ سوچ ہے -ایک میرے کرنے سے کیا ہو جائے گا جب تک ہم یہ سوچ نہیں بدلیں گے پاکستان نہیں بدلے گا -
  یہ صرف پاکستان میں سننے کو ملتا ہے جب تک کسی ادارے کا کوئی ہیڈ اچھا ہوگا تو ادارہ کام کرتا رہے گا جب اچھے ہیڈکو اتاریں گے تو ادارہ بیٹھ جائے گا- اس کا مطلب یہ ہوا ادارہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوا کیونکہ ادارے کی چابی ہیڈ کے پاس ہے- میرا فلسفہ ہے یہ ہے اگر آپ اچھے  ہیڈ ہیں تو آپ آپ نے اپنی سربراہی کے دور تک اس ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں اور ایسا کھڑا کریں اس کے بعد کوئی بھی آئے وہ اس کو چلاتا رہا ہے- لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا-ہمارے ملک کے تمام ادارے شخصیات کے جھرمٹ میں پھنسے ہوئے ہیں ہمارے ملک میں نظام نہیں بنایا گیا پاکستان کا ہر سرکاری ادارہ کیون خسارے میں جا رہا ہے- پی آئی اے خسارے میں جبکہ نجی ایئر لائن کمپنیاں منافع میں جا رہی ہیں- پاکستان پوسٹ آفس خسارے میں جبکہ نجی کورئیر کمپنیاں منافع میں پاکستان ریلوے خسارے میں جبکہ نجی ٹرانسپورٹ کمپنیاں منافع میں یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن آف پاکستان خسارے میں جبکہ نجی کیش اینڈ کیری سٹور دھڑا دھڑ منافع کما رہے ہیں یہ چند مثالیں ہیں پورے پاکستان کا نظام اسی طرح چل رہا ہے- شاید پاکستانی اداروں کو ہم اپنا ادارہ نہ سمجھتے ہوں- یعنی ان اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہمارا مقصد نہ ہو-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :