جمہوریت اور اسکا حقیقی تصور!

اتوار 20 ستمبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

لفظ “جمہوریت” کو انگریزی زبان میں democracy کہا جاتا ہے۔ جو یونانی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جس کے معنی عوام اور طاقت کے ہیں اس لحاظ سے جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان کے منشاء کے مطابق حکومت فرائض انجام دیتی ہے اور تمام انسان قانونی تحفظ کا حق رکھتے ہیں اور ایک آزاد معاشرے کے تمام انسانوں کواپنیملک میں سیاسی صورتحال پرآزادانہ اور خفیہ رائے دہی یعنی انتخاب کے ذریعے اثرانداز ہونے کا حق حاصل ہے مگر پاکستان کے باسیوں کو بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد پچھلے 72 سال سے یہ حق حاصل تو درکنار اس بارے میں آواز اْٹھانے کی بھی سخت سزائیں ملتی ہیں۔

ویسے تو سزاوٴں کی کئی قسمیں ہیں مگر ایک بڑی عام سی سزا غداری کا وہ لیبل ہے جس کے لئیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی بس نادیدہ قوتوں سے اختلاف ہی کافی ہوتا ہے اس اختلاف کے بعد کسی کی بھی محبِ وطنی غداری میں بدل جاتی ہے جمہوریت کے پرستاروں کو 2018 کے الیکشن کے نتائج کے بعد یقین ہو جانا چاہئیے کہ قائداعظم کی رحلت کے بعد سے ہی جمہوریت پسند اور آمریت پسند قوتوں کے درمیان شروع ہونے والی رسا کشی تاحال جاری ہے اور پاکستان میں ووٹ کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ ووٹرز نادیدہ قوتوں کا کھیل دیکھتے رہیں۔

(جاری ہے)

حکمرانوں کا تغیر و تبدل ووٹ سے نہیں ہوتا ، اس کھیل کے پیچھے کچھ نادیدہ ہاتھ ہوتے ہیں جو جمہوریت کے نام پر حکومتوں پر اپنی پسند کے لوگ لاتے ہیں ان ہاتھوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کب تک جی حضوری کرنے والا بہتر ہوگا اور کب نیم پاگل تک کو وزارتِ عظمٰی کی کرسی پہ بٹھانا ٹھیک ہے اگر ہم دوسرے ترقی یافتہ ممالک مثال کے طور پہ یورپین ممالک کی ترقی کا راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک چیز جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں سال ہا سال سے جمہوریت کا تسلسل ہی اْن ممالک کی ترقی اور کامیابی کا راز ہے کیوں ان کے حساس ادارے سول انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور کیوں سول انتظامیہ بھی کبھی اْن اداروں کو یہ موقع نہیں دیتیں کہ ان اداروں کو سول معاملات میں مداخلت کرنی پڑے؟ آئیے جانتے ہیں۔


کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس ملک کی عوام کو حاصل ہونے والی سہولیات ہوتی ہیں مثلاً آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب کے ساتھ معاشرے میں ہونے والی تبدیلی سے پیدا ہونے والے معاملات کے بارے بر وقت منصوبہ بندی، صحت اور سماجی سہولیات، مفت تعلیم کی سہولت، سفری سہولیات، رہائشی علاقوں میں مخصوص جگہوں پر مارکیٹ کی سہولت، بیروزگاری کی صورت میں بیروزگاری الاوٴنس جیسی سہولت، مزدور کی ایک مقرر کردہ اجرت جیسی سہولت، کام کرنے کے مخصوص اوقات، بچوں کی پیدائش کے بعد اْن کا ماہانہ وظیفہ کی سہولت، معذور افراد کے لیے وظیفے اور ان کی استعداد کے مطابق اْن کے لئیے نوکری کا بندوبست کرنے کی سہولت، ریٹائیرمنٹ کے بعد عام آدمی کے لئیے بھی پنشن کی سہولت وغیرہ وغیرہ۔

۔۔۔ایسی ریاست کو فلاحی ریاست کہتے ہیں۔
فلاحی ریاست کا قیام اْسی صورت میں ممکن ہے کہ جب جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے اور سب ادارے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دیں اور جمہوری حکومتیں اپنی توجہ عوام کے اصل مسائل کو حل کرنے پر دیں اور اس سارے معاملے کے لیے ایک باقاعدہ وہ جمہوری طریقہ کار طے کریں جو پورے یورپ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہیں یورپ اور امریکا میں جمہوریت کی دو اقسام اپنائی جاتی ہیں جو مندرجہ زیل ہیں۔


1-بلواسطہ یا نمائندہ جمہوریت
2-بلاواسطہ یا براہ راست جمہوریت
بالواسطہ جمہوریت سے مراد ملکی پارلیمنٹ ہے یعنی وہ طریقہ ہے جس میں تمام شہری براہ راست حکومت کے امور انجام نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو عوام کی جانب سے ان کی منشاء کے مطابق نظامِ مملکت چلاتے ہیں موجودہ دور میں قومی ریاستوں کا رقبہ بہت وسیع اور آبادی بہت زیادہ ہے اور ریاست کے تمام شہری ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ قانون وضح کر سکتے ہیں اور نہ کارو بارِ حکومت میں حصہ لے سکتے ہیں جیسا کہ زمانہ قدیم میں ہوتا تھااس لئے عوام انتخابات کے زریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو اپنے رائے دہندگان کی جانب سے کاروبارِحکومت چلاتے ہیں اسی وجہ سے انہیں نمائندہ جمہوریت بھی کہتے ہیں۔

بلاواسطہ جمہوریت سے مراد بلدیاتی نظام یا شہری حکومت کا وہ طریقہ کار ہے جس میں عوام براہ راست حکومتی امور میں حصہ لیتے ہیں عوام خود ہی قانون وضح کرتیے ہیں اور انتظامی امور انجام دیتے ہیں جسے بلدیاتی یا شہری حکومت کہا جاتا ہے براہ راست جمہوریت کا یہ طریقہ قدیم یونان میں رائج تھا۔ یونان کے شہر بلند و بالا پہاڑوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ تھلک تھے جن کو شہری ریاست بھی کہا جاتا تھا شہری ریاست رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے بہت مختصر ہوتی تھی تمام افراد ایک جگہ جمع ہو کر اپنی ضروریات کے مطابق قانون وضح کرتے اور انتظامی امور انجام دیتے تھے اس طرح وہ قدیم یونان کی شہری حکومت کے امور میں براہ راست حصہ لیتے تھے اس لئے اس طریقہ کار کو براہ راست جمہوریت کہا جاتا ہے۔


مگر بدقسمتی سے پچھلے 73 سالوں سے ہم آج تک اپنے ملک میں بلدیاتی نظام کو رائج نہیں کر سکے ہیں بلدیاتی نظام کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ نظام انگریزوں کا بنایا ہوا ہے جبکہ اس کے برعکس تاریخ ہمارے سامنے یہ دلچسپ حقیقت لاتی ہے کہ سرورِ کائنات حضور اکرم صلی اللہ علیہ و عالیہ وسلم کے دور ہی سے ہم بلدیاتی نظام سے آشنا تھے اب سے چودہ سو برس پہلے مغرب بلدیاتی نظام سے واقف ہی نہ تھا۔

ہم نے تسخیر کائنات کا سبق بھلا دیا اور علم و عمل کو چھوڑ کر طاؤس و رباب کو سینے سے لگالیا تو سب کچھ رکھتے ہوئے مفلس اور بے نوا ہوگئے اور جو جہالت کے گم کردہ راہی تھے ہماری کتابیں پڑھ کر سنبھلے اور نشاة ثانیہ کا اہتمام کیا اور وہ آج ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی، فرق صرف عمل کا ہے۔
ہم جمہوریت کے انہی رہنما اصولوں کو اپنا کر ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھ سکتے ہیں اور یہی جمہوریت کا حقیقی تصور ہےْ، مگر اِس کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا ایک پیج پر ہونا بہت ضروری ہے وگرنہ فلاحی ریاست کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور بس خواب ہی رہ جائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ کب اربابِ اختیار کی نظر اس طرف جاتی ہے اور عوام کے حقیقی مسائل کا حل ممکن ہو سکتا ہے کہ نہیں۔

واللہ علم بالصواب!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :