تاج بچے گا نا تخت!

منگل 26 جنوری 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

وقت کے ساتھ ساتھ عمران خان کی تبدیلی کے نعرے اقتدار کی ہوس کی نظر ہو کر اپنی موت آپ مر چکے ہیں کیونکہ انہیں عوام کے مسائل حل کرنے سے زیادہ دلچسپی دوسروں کو چور ثابت کرنے اور تمام غلطیاں پچھلی حکومتوں کے کھاتے میں ڈال کے چین کی بانسری بجانے میں ہے وہ شاید یہ بھول چکے ہیں کہ اقتدار کی دیوی سدا کسی پر بھی مہربان نہیں رہتی۔

24 سال اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے کے بعد جب اقتدار ملا تو یوں لگتا کہ پچھلے اڑھائی سال سے وہ کسی بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہو چکا ہیں کہ جیسے انہیں اْمید ہی نا تھی کے کبھی اقتدار مل جائے گا، کیونکہ جب سے عمران خان اقتدار میں آئے یا لائے گئے ہیں ان کے وہ بڑے بڑے دعوے جو وہ اقتدار میں آنے سے پہلے کرتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈینگیں ہی ثابت ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

اب عالم یہ ہے کہ کبھی کہتے ہیں کہ ٹیم اچھی نہیں ملی تو کبھی یہ کہ تیاری کے ساتھ حکومت میں نہیں آئے، کبھی کہتے ہیں امریکی طرز پر نئی حکومت کو اقتدار سپرد کیے جانے سے قبل انتظامی معاملات سے متعلق بریفننگ دی جانی چاہیے، مگرسمجھنے والوں کو سب سمجھ آرہا ہے کہ یہ سب بہانے ہیں، درحقیقت حکومت کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ دوسری طرف “احتساب” کا نعرہ لگانے والوں سے جب پوچھو کہ آٹا چینی کے بحران کے مجرموں کو اور ادویات کی قیمت میں 40 سال میں پہلی دفعہ اتنے بڑے اضافے کے مجرموں کو، مہنگائی کے اس طوفان کے مجرموں کو جس کی وجہ سے آج غریب مزید غربت کی چکی میں پس رہا ہے کب کٹہرے میں لایا جائے گا تو جواب ندارد۔

بس یہ کہا جاتا کہ کسی کو “این۔آر۔او” نہیں دوں گا او بھائی عوام تو آپ سے “این۔آر۔او” نہیں مانگ رہی، عوام کو تو دو وقت کی روٹی اور روزگار کے سلسلے میں کیئے جانے والے اقدامات سے آگاہ کریں عوام کو “این۔آر۔او” اور 200 عرب ڈالر کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا بند کریں اب۔عوام تنگ آ چکے ہیں اور ممکن ہے کہ آہستہ آہستہ عوام کا غصہ ایک ایسی طوفانی موج اور ایک ایسے وسیع و عظیم انقلاب کی شکل اختیار کر لے کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا ظاغوت اس کا مقابلہ نہ کر سکے اور اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے بلکہ شاید ایک ایسی بجلی کی کڑک ہو جو بہت بڑے پیمانے پر بیداری کی لہر پیدا کردے اور ایسا سیلاب آئے جو سب کچھ بہا کر لے جائے۔

انسانی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اقتدار کی ہوس انسان کو کس قدر اندھا کردیتی ہے، دیوانہ اور سنگدل بھی کہ انسان سب کچھ بھول کے اقتدار کے نشے میں دْھت ہو جاتا ہے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس ہوس کا انجام براہے۔تاریخ کا ایک واقع بہت مشہور ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ ”اہل یونان نے ایک دیوی بنائی، بہت ہی عمدہ و خوبصورت۔ سفید مرمریں بدن پر تیکھے نقوش کھودے گئے قامت میں نخرا اور کاٹھ میں ایک غرور بھرا دیوی کو اٹھا کر ”ایتھنز“ کے مرکزی چوک میں رکھ دیا گیا لوگ جمع ہوئے، سراپا ناز کے حسن اور اعضا کے توازن پر بے شمار داد دی گئی تحسین کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ کسی نے آواز لگائی ”لوگو! دیکھو دیوی کی تو آنکھیں ہی نہیں لوگوں نے چونک کر دیکھا، واقعی آنکھوں کی جگہ ہموار تھی لوگ اعضا کے توازن اور نقوش کی جادوگری میں اتنے کھوگئے تھے کہ انھیں آنکھوں کی کمی کا احساس ہی نہیں ہوا پھر کوئی پکارا ”ارے، اس کے تو پاؤں بھی غیر انسانی ہیں“ لوگوں کی نظریں بے اختیار دیوی کے قدموں میں آپڑیں دیوی کے پاؤں نہیں تھے بت تراش نے پنڈلیوں کے فوراً بعد پنکھ تراش دیے تھے، چیل کے لمبے لمبے بدصورت پنکھ ”اوئے اس کا دل“ مجمعے میں سے آواز آئی سب کی نظریں سینے پر جا الجھیں وہاں عین دل کے مقام پر ایک سوراخ تھا اور اس سوراخ میں لوہے کا ایک بدصورت ٹکڑا۔

لوگ سنگ تراش کو ڈھونڈنے لگے بت ساز حاضر ہوگیا لوگوں نے مذمت شروع کردی جب لوگ چیخ چیخ کر تھک گئے تو بت تراش نے اداس لہجے میں کہا ”حضرات! یہ اقتدار کی دیوی ہے اقتدار کی آنکھیں نہیں ہوتی ہیں، لہٰذا اقتدار کا پجاری اندھا ہوتا ہے اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لہٰذا ہر وہ شخص جس میں رحم ہو، وہ بھی اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا اور حضرات! اقتدار کے پاؤں بھی نہیں ہوتے، یہ اڑتا ہوا آتا ہے اور اڑتا ہوا واپس چلا جاتا ہے۔


حقیقت یہی ہے کہ اقتدار کی ہوس ہر دور میں انسانوں کو اندھا، سنگدل اور دیوانہ بناتی آئی ہے جس پر اقتدار کا بھوت سوار ہوجائے تو پھراقتدار کو حاصل کرنا اور اسے قائم رکھنا ہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جاتا ہے بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ اقتدار کے نشے نے بھائی کو بھائی کے سامنے لا کھڑا کیا اور ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔

مغلیہ دور حکومت میں اورنگزیب عالمگیر سب سے زیادہ پارسا بادشاہ گزرے ہیں، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سلطنت ہند کی سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باوجود اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے ٹوپیاں بنتے تھے اور قرآن مجید کی کتابت کرتے تھے ان کی پارسائی کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے ”اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں دہلی کے ایک بزرگ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت لکھ کے بند کی اور کہاکہ نماز جنازہ سے پہلے وصیت کھول کر پڑھی جائے ان کی وفات کے بعد وصیت پڑھی گئی تو اس میں درج تھا کہ ان شراط پر پورا اترنے والا شخص ہی میرا جنازہ پڑھائے گا وہ شرائط یہ ہیں اس شخص نے پوری زندگی ہر نماز باجماعت پڑھی ہو ‘ساری زندگی نماز عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہو زندگی میں کبھی بھی نماز عصر کی چار موکدہ سنتیں نہ چھوڑی ہوں وصیت سننے کے کافی دیر بعد اشک بار آنکھوں کے ساتھ بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر آگے بڑھے اور حضرت کی نماز جنازہ پڑھائی اور کہا ”آپ نے آج اس بھرے مجمعے میں میرا پردہ چاک کردیا ہے۔

“ ایسے پارسا انسان اورنگزیب عالمگیر کی زندگی کا بھی ایک حصہ اقتدار کے حصول کے لیے اپنے والد شاہجہان اور اپنے بھائیوں مراد بخش، شجاع اور دارا سے لڑتے گزرا۔
آج تک اقتدار نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی، اقتدار آتا بہت مشکل سے ہے، لیکن جاتے ہوئے پتا بھی نہیں چلتا فرعون کو جب اس کے نجومیوں نے بتایا کہ ایک بچہ تمہارے اقتدار کے لیے خطرہ بنے گا تو فرعون پر یہ بہت شاق گزرا، اپنا اقتدار بچانے کی خاطر اس نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے شمار نومولود بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن اقتدار اس کا پھر بھی نہ بچ سکا اور فرعون دریا میں ڈوب کر عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔

ان سب واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقتدار سدا نہیں رہتا لہٰذا عمران خان کو یہ بات اب سمجھ آجانی چاہئیے کہ ان کی حکومت کی نااہلی کی سزا اب 22 کروڑ عوام بھگت رہی ہے، اوپر سے نا اہل حکمرانوں کے دلوں میں بغض، انتقام، کینہ اور ضِد بھی ہے اور لب و لہجہ میں غیر شائستگی کا عنصر بھی غالب ہے اور ان کے گرد کرپٹ ترین لوگوں کا گھیرا بھی ہے جس سے عوام کو ملنے والی سزا اور زیادہ تکلیف دہ ہوتی جا رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے ہاتھوں صبر کا دامن چھوٹ جائے اور حکومت کا گریبان عوام کے ہاتھ میں آجائے تو پھر تاج بچے گا نا تخت!
رئیس امروہی کا قطعہ ہے،
تاج و تخت و حکومت و دربار
عبرت انگیز یا اولی الابصار
تاجِ کسریٰ کے ساتھ کثری مرگ
تختِ دارا کے ساتھ تختہ دار

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :