شفاف انتخابات

منگل 8 جون 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

سامراجی نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی ہماری جمہوریت ابھی تک نہ تو سیاسی طور پر سن بلوغت کو پہنچ سکی ہے،نہ ہی اس سے عام آدمی کو فائدہ مل سکا ہے،ملکی اور قومی وسائل سے وہی اشرافیہ جی بھر کے مستعفید ہو رہا ہے،جو عہد غلامی میں سامراج ہی کا ہمنوا تھا، بانی پاکستان کا اخلاص، محنت، وژن ،ملی جذبہ ہی تھا،جس نے ایک نوزائیدہ مملکت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا تھا،اِنکی یہ جدوجہد ہر اعتبار سے عوامی اور جمہوری تھی،نامساعد حالات کے باوجود ہمیں انکی حیاتی سے کوئی ایسا عمل نہیں ملتا جو ماورائے قانون ہو، جس میں اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہو، آئین کی خلاف ورزی سر زد ہوئی ہو، اپنے مفادات کے لئے انھوں نے بحثیت گورنر جنرل مفاد اٹھانے کی ادنیٰ سی بھی کاوش کی ہو۔


قائد کے اسی وطن میں بدعنوانی کی داستانیں،مفاداتی سیاست کی کہانیاں زد عام ہیں،ذاتی مفاد کے لئے قانون موم کی ناک ثابت ہوتا رہا، آئین نجانے کتنی بار تختہ مشق بنا رہا،اس کو معطل کر نے والے جمہوریت ہی میں سے نقص نکالتے رہے،اپنی منشا اور مرضی کے مطابق ضابطے بناتے رہے،وہ درخشاں اُصول جو بانی پاکستان نے جمہوریت کے فروغ کے لئے وضع کے لئے ان سے سبق لینے کی دانستہ کاوش نہ کی گئی،ہر آمر نے اِنکی جماعت کے لاحقہ یا سابقہ لگا کر اپنے طرز حکمرانی کو دوام بخشا، وردی والے سیاسی قیادت پر جبکہ سیاسی زعماء غیر جمہوری قوتوں پر جمہوریت کی ناکامی کا ملبہ ڈال کر ہی اپنے اپنے مفادات سمیٹتے رہے ہیں،ایک عوام ہی تھے جنہوں نے جمہوری نظام کے نام پر ہر ُدکھ اٹھایا ہے،ہر دو فریقین ضمیر کی تسلی کے لئے اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں، یوم محشر اِنکی ملاقات بانی پاکستان سے ہو گئی تو گمان ہے کہ وہ اِنھیں دیکھتے ہی منہ پھیر لیں گے۔

(جاری ہے)


موجودہ قومی منظر نامہ بھی ماضی سے قطعی مختلف نہیں،قرائن بتاتے ہیں کہ جب غیر جمہوری قوتیں مسند اقتدار پر برَا جمان ہوں، تو جمہوری گروہ اِن سے نجات کے لئے تحریک چلاتے ہیں لیکن جب کوئی سیاسی حکومت برسر اقتدار ہو تو اسکی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں،اب تلک کوئی ایک آدھ گورنمنٹ ہی اپنی آئینی مدت پوری کر نے کی سعادت حاصل کر سکی ہے،عصر حاضر کے حکمرانوں نے بھی ایسی ہی تاریخ دہرائی ہے،اس وقت بھی اپوزیشن تحریک چلانے کا عندیہ دے رہی ہے،اس قبل وہ عوامی اجتماعات میں سرکار سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکی ہے،اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ چیف ایگزیکٹو شفاف انتخابات کے نتیجہ میں منتخب نہیں ہوئے ہیں کچھ نا دیدہ ہاتھوں نے ا نھیں کرسی پر بٹھانے کیلئے انتخابات کا سہارا لیا ہے، اس ماحول کو دیکھتے ہوئے سرکار نے اپوزیشن کو باہمی مشاورت سے انتخابی اصلاحات لانے اور پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے۔


ہر انتخابی نتائج میں کیڑے نکالنے کی روایت بڑی مستند ہے، دھاندلی کا الزام تو پہلی فرصت میں لگا دیا جاتاہے، اس عمل سے عوام کا اعتماد ہی ختم نہیں ہوا بلکہ قومی الیکشن میں ووٹ کی شرح کاسٹ بتدریج کم ہوئی ہے،گذشتہ انتخاب میں نسل نو نے ذوق اور شوق سے ووٹ دینے کا فریضہ انجام دیا ، انکا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا، اس کے اثرات ضمنی انتخابات کے نتائج سے عیاں ہیں،وہ سیاسی جماعتیں جن کے خلاف سرکاری طور پر میڈیا پر پروپیگنڈہ روا رکھا گیا اِنکے ہی امیدواران نے مذکورہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی،تو پھرا س سے کیا اخذ کیا جائے کہ سرکار کا موقف غلط ہے یا انتخابی نظام اِتنا بوسیدہ ہے جو کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے میں قاصر ہے۔


کامیابی کے لئے کپتان نے الیکٹیبل کی سیاست کا سہارا لیا یا ایسا کرنے کی انھیں ہدایات دی گئی،اس وقت بھی آزاد کشمیر میں انتخابات ہونے کو ہیں،لیکن حکمران جماعت سے اس کا نظریاتی سپورٹرز شکوہ کناں ہے کہ پارٹی ٹکٹ اشرافیہ کو دیا جارہا ہے،جو اس بات کی دلیل ہے کہ سیاسی جماعتوں پر سرمایہ داروں، وڈیروں کا قبضہ ہے یہ طبقہ اب اقتدارپارٹی بن چکا ہے حصول ٹکٹ کے لئے ہر ضابطہ توڑ دیتا ہے،اس فعل کو ہوشیاری سے تعبیرکرتا ہے ،اس سے نظریاتی کارکن کی حق تلفی ہوتی ہے،مفاداتی ورکرز نے سیاسی کلچر کو یکسر تبدیل کر دیا،اس لئے ہمارے ہاں نظریاتی سیاست دَم توڑ چکی ہے،،پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا سیاسی قیادتیں سیاسی جماعتوں میں پارٹی انتخابات کو لازم ہی نہیں سمجھتی ،سیاسی جماعتیں،خاندانی،موروثی پرائیویٹ پارٹی لمیٹڈ کی حثیت اختیار کر چکی ہیں، حیرت یہ ہے کہ یہی پارٹیاں قومی انتخاب میں غیر آئینی اداروں کی مداخلت کا چرچا کرتی ہیں،عام شہری انتخابی عمل سے اس لئے مایوس دکھائی دیتا ہے۔


عالمی سطح پر بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں جمہوریت کی فیوض و برکات سے عام شہری مستعفید ہو رہا ہے،برطانیہ ہی میں ہمارے ہم وطنوں کو قومی سیاست میں اہم کرادار ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے،شفاف انتخابات نے اسمبلیوں تک پہنچے میں اِنکی مدد کی ہے، اِنکے آباواجداد نہ توجاگیر دار تھے نہ ہی سردار بلکہ اِنکے والدین معمولی سطح کے وہاں ملازم تھے، منتخب ممبران کی خدا صلاحتیوں کی راہ میں کوئی رنگ، نسل ،قوم اور غیر جمہوری ادارے رکاوٹ نہیں بنے۔


ہماری نسل نو بھی ایسا ہی جمہوری نظام چاہتی ہے ،کہ جس کی وساطت سے عام شہری کو پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے مواقع میسر آئیں، بڑی سیاسی جماعتیں اگر قوم کا درد رکھتی ہیں تو انھیں انتخابی اصلا حات کے لئے دست تعاون بڑھاتے ہوئے ایسا طریقہ وضع کر نا ہوگا، جس کا راستہ پارلیمنٹ میں عام فرد کے منتخب ہونے کی طرف جاتا ہو،اس کے لئے کوئی بھی طرز انتخاب اپنایا جا سکتا ہے خواہ ووٹنگ مشین کے ذریعہ ہو یا بلٹ پیپر پر مہر لگانے سے ہو،متناسب نمائندگی کو ضروری سمجھا جائے یاکامیابی کے لئے ووٹ کاسٹ کی شرح مقرر کی جائے،امیدوار اور ووٹر کے لئے کوئی تعلیمی معیار رکھا جائے۔


 مہنگے ترین انتخابی کلچر میں عام ورکر کو نظر انداز کر کے پارٹی ٹکٹ کا اجراء پارٹی فنڈ کے نام پرجب تلک سرمایہ دار، وڈیرے، سردار ،صنعت کار کیلئے کیا جاتا رہے گا انتخابی اصلاحات کار گر ثابت نہیں ہو سکتی ،وہ تمام سیاسی قائدین جوصبح و شام جمہوریت کے لئے قربانی اور ووٹ کو عزت دینے کی گردان کرتے ہیں انھیں سب سے پہلے پارٹی انتخاب کروا نے کی مثال پیش کرنا ہوگی ،اِنکی عدم موجودگی سے معروف جماعت میں خاندانی سیاست کی تقسیم کا تاثر مل رہا ہے، اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات سے راہ فرار اختیار نہیں کرنا چاہئے،ورنہ انکا کوئی عذر شفاف انتخابات کے حوالہ سے قوم قبول نہیں کرے گی۔


علاوہ ازیں ساری مشق اس وقت تک بے سود ہے جب تلک الیکشن کمیشن کو مالی اور انتظامی خود مختیاری نہیں دی جاتی ایک آزاد اور خود مختیار الیکشن کمیشن ہی غیر جمہوری افراد، اداروں اور طاقتوں کی الیکشن میں مداخلت روکنے پر قادر ہو سکتا ہے، صاف شفاف الیکشن کے ذریعہ منتخب قیادت ہی قومی اہمیت کے بے باک فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوگی ،اس خطہ میں بھارتی الیکشن کمیشن کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ اس کی آزادی سے عام شہری بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتا ہے، شفاف الیکشن کے لئے اتنی آزادی ہی ہمارے الیکشن کمیشن کو درکار ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن الیکشن کمیشن کی خود مختیاری اور انتخابی اصلاحات میں سرکار سے کس حد تک تعاون پر آمادہ ہوگی۔تاکہ شفاف انتخابات کا انعقاد بھی اس قوم کا مقدر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :