آبی وسائل کی فراہمی

منگل 7 دسمبر 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

برصغیر میں جب یونین جیک اتارا گیا تواس وقت تک برطانوی انجینئرز سندھ طاس منصوبہ کے تحت دُنیا کا سب سے بڑا نظام آبپاشی مہیا کر چکے تھے،جس پر 1909 نے حکام نے غوروفکر کیا تھا وہ پنجاب کو برصغیر کے لئے گودام بنانے کے خواہاں تھے،جس کا ایک مقصد سیلاب کے دنوں میں پانی کا ذخیرہ کرنا اور ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچانا بھی تھا،اس لئے بہت سے دریاؤں پر بند باندھے گئے اور بیراج تعمیر ہوئے۔

1932 میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول کردُنیا کے سب سے بڑے نظام آبپاشی کو متعارف کروایا گیا،بعد ازاں کالا باغ کے مقام پر دوسرا بیراج بنایا ، مگر تقسیم ہند کے بعد سب کچھ ہی بدل گیا،سر سیرل کلف کی غیر منصفانہ تقسیم نے اس نظام کی پوری فیبرکس کو ہی برباد کر کے رکھ دیا، اس ناانصافی کی کوکھ سے مسئلہ کشمیر کے علاوہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم بھی متنازعہ ہو گئی ہے۔

(جاری ہے)


برطانوی حکام خواہاں تھے کہ دونوں ریاستیں آبپاشی کے نظام کو ایک اکائی کے طور پر جاری رکھیں،بٹوارہ کے وقت پنجاب کی23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں تھیں، لیکن نہرو نے انکی خواہش کے برعکس بڑے سیدھے الفاظ میں کہہ دیا کہ بھارت کے دریا بھارت کا مسئلہ ہیں،شائد اُسے گمان تھا کہ کشمیر میں مسلم اکثریت ہونے کے باوجود ہندو راجا بھارت کے ساتھ شامل ہونا پسند کرے گا،اور کشمیر پر قابض ہونے کی صورت میں بھارت کی دریاؤں پر بالا دستی برقرار رہے گی،امکان غالب ہے کہ نہرو اور ہندو راجا کے مابین اندرونی طور پر کوئی خفیہ ساز باز ہو چکی تھی،ریڈکلف نے مسلم اکثریت کا علاقہ گورداسپور انڈیا کے حوالہ کر کے کشمیر کا جو زمینی راستہ دیا جس سے بھارت کا دریاؤں پر قابض ہونا مزید آسان ہو گیا ،دریائے راوی اور ستلج پر قائم ہیڈ ورکس بھارت کے قبضہ میں آچکے تھے جس کے پانی سے پاکستان کی سرزمین پچاس برس سے سیراب ہورہی تھی،اس زعم میں ہندوستان عالمی راہنماؤں کی کاوش کے باوجود سندھ طاس معاہدہ کرنے پر رضا مند نہ تھا۔


قیام پاکستان کے بعدکوٹری،چشمہ، گدو بیراج جب بالترتیب مکمل ہوئے ،تو پانی کی مشکلات میں قابو پانے میں مدد ملی لیکن مسئلہ حل نہ ہوا،1960 میں ہماری ریاست اس پوزیشن میں آچکی تھی اور مفادات کاتوازن تقسیم کی نسبت ہموار ہو ا تو بآلاخر ورلڈبنک بھارت اور پاکستان کے مابین معاہدہ پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گیا۔اس کے لئے انڈس کمیشن مستقل بنیادوں پر بنایا گیا،یہ معاہدہ سندھ طاس قرار پایا، جس کے تحت مغربی دریا جہلم ،چناب، سندھ کا پانی پاکستان اور مشرقی دریا ستلج ،راوی ،بیاس کا پانی بھارت کو استعمال کر نے کی اجازت دی گئی، یہ بھی طے ہوا کہ ہر چھ ماہ بعد کمیشن کا اجلاس باقاعدگی سے ہوا کرے گا، جس میں تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے گا، کرونا کی وجہ سے اس کے اجلاسوں میں تعطل آیا ہے۔


بھارت نے سندھ طاس معاہدہ پر من وعن عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو عالمی عدالت کے دروازہ پر دستک دینا پڑی ہے،
دریا ئے چناب اور جہلم پر ڈیم کی تعمیر پر اسلام آباد نے اعتراضات اٹھائے تھے ،کہا جاتا کہ ستر کی دہائی میں بھارتی سورماؤں نے تیس سے زائد ڈیم کشمیری د ریاؤں پر تعمیر کرنے کا قصد کیا تھا وہ اس پر عمل پیرا ہیں، 2013 میں عالمی عدالت ہیگ نے بھارتی
حکام کو ہدایت کی، کہ وہ ماحولیاتی بہاؤ کو برقرار رکھنے کے لئے نو کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی چھوڑنے کا پابند رہے گا، عدالتی فیصلہ کے باوجود بھارت حکم عدولی کررہا ہے۔


سندھ طاس معاہدہ کے موقع پر عالمی اداروں کے سامنے بھارتی حکام نے تحریری طور پر یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ پاکستان کے دریاؤں کے بہاؤ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا، مگراِس وقت بھی بھارت دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی پراجیکٹ اور دریائے بیاس کے اوجھ پور مقام پر اوجھ ڈیم کی تعمیر سے پانی کے بہاؤ کو متاثر کر رہا ہے۔
عالمی قوانین کے مطابق بھارت ماحولیاتی بہاؤ، چرند، پرند اور جانوروں کے لئے 40 فیصد پانی اِن دریاؤں میں چھوڑنے کا پابند ہے جو اِسکے زیر تسلط ہیں، مگر وہ پانی اُس وقت چھوڑتا ہے جب اونچے درجہ کا سیلاب ہو تا ہے تاکہ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو،مشرقی دریا جن سے بھارت فیض یاب ہورہا ہے اِن کا بہاؤ جنوبی پنجاب کی طرف بھی ہے جس میں قانونی طور پر پانی چھوڑنا بھارت پر لازم ہے، پاکستان نے اسکی رقم بھی معاہدے کے باعث ادا کی ہے، چندسال قبل دریائے ستلج کے مقام پر سول سوسائٹی کی طرف سے انسانی ضرورت کے لئے پانی چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس کے بعد لمبی خاموشی دیکھنے کو ملی ہے۔


اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد توانائی کی پیداوار، پانی کا اہتمام صوبہ جات کا عنوان بن چکا ہے، ان حالات میں عوامی نمائندگان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ دریائے راوی، ستلج، بیاس میں40 فیصد پانی کی فراہمی کے لئے آواز اٹھائیں،یہ پانی اگرچہ زراعت کے لئے شائد نا کافی ہو ،لیکن باغبانی،مال مویشی اور جنگلات کے لئے انتہائی فائدہ مند ہو گا،تھل اور چولستان دو بڑے صحرا یہاں پائے جاتے ہیں، پانی وہاں کے باشندوں کی بنیادی ضرورت ہے جن کا روزگار لائیو سٹاک سے وابستہ ہے، چولستان کی زمین بعض بااثر حضرات کو بھی الاٹ کی جا چکی ہے، پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے نئی نہر بھی بنائی گئی ہے، اس کے لئے عام کسان کے پانی سے کٹوتی کی گئی ہے، وہ علاقہ جات بطور خاص متاثر ہوئے ہیں جہاں زیر زمیں پانی کڑوا ہے۔


ہماری خوش فہمی یہ ہے کہ اگر بین الااقومی قانون کی روشنی میں بھارت مذکورہ دریاؤں میں پانی چھوڑ دیتا ہے تو دریاؤں کے کنارے نئے درخت لگائے جاسکتے ہیں، ڈرپ آبپاشی کے نظام کے اطلاق سے چھوٹے چھوٹے قطعات میں سبزیاں صاف پانی میں آگائی جا سکتی ہیں، جانوروں کے لئے چارہ میسر آ جائے گا، صحرا کے لوگ بھی اس کو سٹور کر سکیں گے، ان میں مچھلیوں کی پرورش ممکن ہو سکے گی۔


المیہ یہ ہے کہ دریائے بیاس پر سرکاری اداروں نے پہرہ نہیں دیا، اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دریا کی زمیں پر قبضہ مافیا نے ہاتھ صاف کر لئے ہیں، کسان نے ملحقہ زمین کو اپنی ملکیت بنا لیا ہے، یہی حال دیگر دریاؤں کا بھی نظر آرہا ہے،یہ عمل قومی جرم کے
 مترادف ہے۔
موجودہ سرکار اس وقت سرکاری اراضی وا گزار کروانے کے لئے متحرک ہے، اِسی فورس کو یہ بھی ٹاسک دیا جائے کہ وہ دریائی زمیں بھی خالی کروائے تاکہ ہندوہستان کو دریاؤں میں پانی نہ چھوڑنے کا کوئی بھی بہانہ نہ ملے۔


 خشک ہونے والے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کی مہم عالمی سطح پر چلائی جائے، اس ضمن میں سوشل میڈیا بھی موثر ہوسکتا ہے، یہ پانی پاکستان بالخصوص جنوبی پنجاب کے عوام کا حق ہے ، عوامی نمائدگان اس حوالہ سے اپنی توانا آواز پارلیمنٹ میں لازم بلند کریں، جب بھی سندھ طاس کمیشن کا اجلاس منعقد ہو 40 % پانی کی عدم فراہمی کا ایجنڈا سر فہرست ہو، ہندو بنیا اورریڈکلف کی بد نیتی کشمیری راجہ کی بزدلی ہی نے سندھ طاس کی خوبصورتی کو بد صورتی میں بدل کر پانی کے فطری بہاؤ کے آگے بند باندھنے کی جوبھونڈی حرکت کی ہے جس کی اجازت کوئی بھی قانون نہیں دیتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :