ہوا میں معلق بت دیکھ کر محمود غزنوی کی حیرت

ہفتہ 30 جنوری 2021

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

حضرت شیخ فریدالدین عطار کے مطابق لفظ سومنات دو الفاظ سوم اور نات کا مرکب ہے,سوم مندر کا نام ہے اور نات اُس بُت کا جو اس جگہ رکھا گیا تھا.ہندی زُبان میں نات کے معنی بُزرگ یا بڑی ہستی کے ہے۔اُس زمانے میں سومنات ایک بڑا شہر تھااور یہ شہر بحیرہ عرب کے کنارے پرآباد تھا۔ شہر اپنے عظیم و شان بُت کی وجہ سے تمام برہمنوں کے لئے بُہت متبرک تھاچونکہ اس بُت کا نام سومنات تھااسی وجہ سے یہ مقام بھی سومنات کے نام سے مشہور ہوا۔

سومنات مندر کی چھت 56 ستونوں پر کھڑی تھی اور اس کے درمیان میں سومنات کابت پڑا تھا جس کی لمبائی پانچ گز تھی۔حبیب السیر نامی کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ہندوستان کے تمام باشندے اُس وقت سومنات کو تمام بتوں کا سردار مانتے تھے۔جب کبھی سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو یہاں تقریباً دو لاکھ تیس ہزار آدمی جمع ہوتے۔

(جاری ہے)

ہندوستان کے راجا اس مندر کے اخراجات کے لئے گاؤں اور قصبے وقف کرتے رہتے۔

مندر میں ہر وقت دو ہزار برہمن پوجا پاٹ کے لئے موجود ہوتے ۔ پُجاری روزانہ سومنات کے بُت کو گنگا کے پانی سے اشنان(نہلایا) کراتے تھے حالانکہ سومنات اور گنگا کا درمیانی فاصلہ چھ سو کوس کا تھا۔ مندر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سونے کی زنجیر تھی جس کا وزن دو سو من تھا۔اس زنجیر میں چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں لگی تھی ۔پوجا پاٹ کے وقت جب اس زنجیر کو ہلایا جاتا تو گھنٹیاں بجنے لگتیں اور پھر تمام پُجاری پوجا کے لئے مندر میں داخل ہوجاتے۔

سومنات مندر میں پانچ سوعورتیںاور تین سو مرد ہوتے جو بھجن گاتے ،نرت کرتے اور سازندے بجاتے تھے۔پُجاریوں کے سر اور داڑھیاں مُنڈھوانے کے لئے ہروقت تین سو حُجام موجود رہتے تھے۔ہندوستان کے راجا اکثر اپنی بیٹیوں کو اس مندر کی خدمت کے لئے بھیجا کرتے جو پھر ہمیشہ اپنی ساری زندگی اس مندر پر ہی گذاردیتیں۔جب محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیاتو سومنات شہر کے باسیوں نے محمود غزنوی کے پاس ایک وفد بھیجا کہ وہ شہر پر قبضہ کرلیں لیکن سومنات بُت نہ توڑیں۔

محمود غزنوی کے وزراء نے بھی محمود کو ایسا کرنے سے روکنا چاہالیکن محمود غزنوی نے جواب دیاکہ کیا آپ چاہتے ہے دُنیا محمود کو محمود بُت فروش کے نام سے یاد رکھے بلکہ یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہندوستان محمود کو محمود بُت شکن کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے۔
جب سُلطان محمود غزنوی کو اُس کے قابل اعتماد دوستوں نے یہ بتایاکہ ہندوستان کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ موت کے بعد انسان کی روح جسم سے جُدا ہوکر سومنات کی خدمت میں حاضر ہوجاتی ہے اور سومنات ہر روح کو اُس کے کردار اور اعمال کی بناء پر نیا جسم عطاء کرتا ہے۔

محمود نے جب یہ بے معنی افسانے سُنے تو اُس کے دل میں جہاد کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔اس مقصد کی خاطر سُلطان محمود غزنوی نے تیس ہزار سپاہیوں کو ساتھ لیا اور 20 شعبان 415 ہجری کو سومنات کی طرف روانہ ہوا۔محمود غزنوی جب سومنات فتح کرکے مندر کے اندر داخل ہوا تو دیکھا مندر میں سومنات کا بت ہوا میں معلق ہے۔یہی وہ خاص بات تھی کہ جو بھی اس بت کو ہوا میں معلق دیکھتا تو اس کی برتری تسلیم کرلیتا،یہ منظر دیکھ کر محمود غزنوی بھی حیرت زدہ ہوگیا۔

اس وقت محمود کے ساتھ معروف مسلم دانشور البیرونی بھی موجود تھے ۔محمود غزنوی نے البیرونی سے پوچھا''یہ کیا ماجرا ہے؟، بت بغیر کسی سہارے کے فضا ء میں کس طرح معلق ہے؟''البیرونی نے مندر اور بت کا چاروں طرف سے جائزہ لیا اور پھر ادب سے بولا''سلطان معظم،اس مندر کی چھت کے ایک طرف سے چند اینٹیں نکلوادیں۔''سلطان نے فوری حکم دیا اور چھت کی ایک طرف سے چند اینٹیں نکال دیں گئیں۔

اینٹیں نکلتے ہی فضا ء میں معلق سومنات کا بت یکدم ایک طرف جھک گیا۔البیرونی معاملہ سمجھ چکا تھا،اس نے ادب سے سلطان کو بتایا''سلطان معظم،یہ بت لوہے کا بنوایا گیا ہے اور مندر کی چھت پر مخصوص جگہ پر بہت بڑے مقناطیس نصب کیے گئے ہیں جو بت کو اپنی طرف کھینچتے رکھتے ہیں ، یوں یہ بت ہوا میںمعلق رہتا ہے۔''بعد میں جب اینٹوں کا معائنہ کیا گیا تو البیرونی کا تجزیہ سوفیصد صحیح نکلا۔سلطان محمود غزنوی،البیرونی کی عقلمندی پر بڑا خوش ہوا اورپھر گرز سے ایک ہی وار کرکے سومنات کے بت کو توڑ دیا۔(مختلف تاریخی کتابوں سے ماخوذ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :