ٹیلینٹ دو کوڑی کا

ہفتہ 5 جون 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

یہ حقیقت ہے کہ خدا نے انسان کو پیدا کرتے وقت بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے اور یہی خوبیاں انسان کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتی ہیں اور بعض اوقات یہی خوبیاں ان کی وجہ شہرت بھی بن جاتی ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ ایک انسان میں ایک ہی خوبی پائی جائے ایک ہی انسان میں نا جانے کتنی ہی خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔اگر  کوئی گانا اچھا گاتا ہے تو ساتھ ساتھ ایکٹنگ بھی اچھی کر لیتا ہے۔

آج کل کی زبان میں ان خوبیوں کو ٹیلنٹ کا نام دیا جانے لگا ہے۔ ہر انسان میں مختلف ٹیلینٹ ہوتا ہے اور یہ کوئی آپ سے چرا نہیں سکتا کیونکہ کہ یہ گاڈ گفٹڈ ہوتا ہے, یہاں ایک بات اور ذہن نشین کرواتی چلوں کہ ٹیلنٹ ایک جیسا ہو سکتا ہے مثال کے طور پر اگر دو انسانوں میں فوٹوگرافی کا فن موجود ہے تو ضروری نہیں وہ ایک جیسی تصاویر اپنے کیمرے میں عکس بند کریں دونوں کے تصویر کھینچنے کا زاویہ ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔

(جاری ہے)


میں نے اب تک بہت سارے ٹیلنٹڈ لوگ دیکھیں ہیں جو اپنے کام میں بہت ماہر ہیں اور اپنا کام پوری محنت اور لگن سے کرتے ہیں اپنے کام کو خوبصورت بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں مگر افسوس کہ وہ لوگ دنیا سے ایسے ہی چپ چاپ رخصت ہو جاتے ہیں۔ آج کل دیکھا جائے تو ہماری نوجوان نسل اس دور میں خود کو منوانے کی کوششیں کر رہی ہے, ہمارے ملک میں جتنی فیلڈز موجود ہیں ان میں اب خواتین بھی حصہ لینے سے گریز نہیں کرتیں مگر مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اس بات کا ذکر کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی حیثیت دو کوڑی کی ہو کر رہ گئی ہے۔

ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کو پیسوں سے تولا جانے لگا ہے, ہمارے ملک میں صرف انہی لوگوں کو ٹیلینٹڈ مانا جاتا ہے جن کے پاس روپیہ پیسہ ہو یا جن کے پاس بڑی بڑی سفارشیں ہوں یا پھر کسی مشہور شخصیات کی اولادیں ہوں۔ آج کسی بھی ادارے میں جا کر دیکھ لیں آپ کو اپنے کام میں مہارت حاصل رکھنے والے لوگ کم اور پرچیاں زیادہ دیکھنے کو ملیں گی- یہاں سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے سوشل میڈیا کی ہے جہاں بہت سے لوگوں کو شہرت حاصل ہوئی جن میں ٹیلنٹ کیا بات کرنے کا ڈھنگ تک نہیں آتا, کچھ لوگ پارٹی کر کے مشہور ہو گئے انہیں شہرت دینے کا سہرا میرے ملک کی پیاری عوام کو جاتا ہے جو ٹیلنٹڈ تعلیم یافتہ اور کچھ نہ کر کے شہرت پانے والوں میں فرق  محسوس نہیں کرتے اور ہمارے میڈیا چینلز بھی کچھ کم نہیں وہ انہیں اپنے چینلز کے ٹاک شوز میں بلا کر اور چار چاند لگا دیتے ہیں اور انہیں عوام کے سامنے ہیروز بنا کر پیش کرتے ہیں صرف اور صرف اپنے شوز کی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے۔

آج کل کے نوجوان ٹک ٹوک جیسی اپلیکیشن کا استعمال کر کے دنیا میں شہرت حاصل کر چکے ہیں, لیکن میں ٹک ٹوک کے خلاف بلکل نہیں ہوں آپ  اس ایپلیکشن پر وڈیوز ضرور بنائیں, لیکن یہاں ایک اور حقیقت ہے کہ اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے  ذلت دے, مگر میرا ایک سوال میڈیا چینلز والوں سے یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس واقعی حقیقی فن موجود ہے کیا ان کو پروموٹ کرنے سے آپ کا کھانا پینا بند ہو جائے گا, کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنے ٹیلینٹ کو عوام کے سامنے نہیں لا پاتے, کتنے ہی لوگ ہیں جو بےروزگار ہیں اور روزگار کی تلاش میں روز گھروں سے نکلتے  ہیں اور شام ہوتے ہی منہ لٹکائے واپس گھروں کو چل پڑتے ہیں۔

اپنے شوز کی ٹی آر پی کے لیے ان لوگوں کا حق نا ماریں جو ہمارے ہیروز ہیں, ناچ گانے کے علاوہ کچھ ایسے شوز بھی عوام کے سامنے لائیں جائیں جن سے لوگوں کو اپنے ٹیلینٹ کے ساتھ آگے بڑھنے کے مواقع فراہم ہوں۔ افسوس ہے کہ ہم سے بعد میں بننے والے ممالک نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر لی ہے اور ہم ابھی تک وہیں بیٹھے ہیں مگر قصور صرف میڈیا والوں کا ہی نہیں ان میں ہماری حکومت بھی شامل ہے جو ان مسائل سے بے خبر ہے۔

ہمارے ملک میں پیسہ دے کر کام کروانے کا رواج آج بھی قائم ہے کیوں؟؟ ایک پڑھا لکھا شخص گھر بیٹھا جب شوز میں بلاوجہ کی شہرت حاصل کرنے والوں کو دیکھتا ہوگا کیا گزرتی ہو گی اس پر۔ اس لیے مہربانی کر کے ان لوگوں کو منظر عام پر لایا جائے جو واقعی حقیقی حق رکھتے ہوں, دو کوڑی کے ٹیلینٹ کو لوگوں کے سامنے لانے سے گریز کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :