قاتل کون ہے ؟؟

منگل 29 جون 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

ایسے بہت سارے تہوار اور دیگر رسومات جو مغربی اور مشرقی ممالک میں منائی جاتی ہیں وہ ہم نے بھی اپنائی۔
لیکن ایسا تہوار جسے ہم نے اپنا تو لیا لیکن اس تہوار نے تباہی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں,  باپ سے ان کے سہارے چھن گئے اور بہنوں کی رکھوالی کرنے والے منوں مٹی تلے جا سوئے۔ جی ہاں میں اسی خونی کھیل کی بات کر رہی ہوں جسے پاکستان میں بسنت کےنام سے جانا جاتا تھااور اب یہی تہوار خونی کھیل بن کر رہ گیا ہے۔

کئ لوگ آج بھی بڑے فخر اور جوش و خروش کے ساتھ اس تہوار  پر پابندی ہونے کے باوجود بھی مناتے ہیں۔
سولہ سال پہلے جب گھر والوں کو باتیں کرتے سنا کہ فلاں بندے کے گلے پر ڈور پھر گئی اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے تو میرا دماغ میں کئ سوالوں نے جنم لیا کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے, ایک ڈور انسان کی جان کیسے لے سکتی؟؟ ابھی یہ واقعہ ذہن سے نکل بھی نا پایا تھا کہ کچھ ماہ بعد ایک اور قیامت خیز واقعہ جو آج بھی یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں دماغ سن ہو جاتا ہے- یہ واقعہ میرے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ چوبرجی  کے پاس لاہور میں پیش آیا اور اسے بر وقت سامنے ہسپتال لے جایا گیا اور ﷲ کے فضل و کرم سے اسکو ایک اور زندگی کی نعمت حاصل ہوئی- اس واقعہ نے جیسے بھاگتی زندگی کی رفتار کو بریک لگا دی۔

(جاری ہے)


اس واقعہ کے بعد نہ جانے کتنے واقعات خبروں کی زینت بننے لگے روز بہ روز نوجوانوں اور بچوں کے گلے کٹنے لگے مگر کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا جس کی وجہ ایسے واقعات میں اضافہ ہونے لگا۔ ابھی حال ہی میں لاہور کے اندرون علاقے مستی گیٹ کے رہائشی تین سالہ پھول جیسےبچے نے اپنے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ وہ بچہ جو اپنے باپ کے ساتھ بغیر کسی خوف کہ خوشی خوشی آئسکریم کھانے موٹر سائیکل پر آگے بیٹھ کر اپنے باپ کے ساتھ جا رہا تھا کہ خطرناک ڈور تیزی نے نازک سی گردن کو کاٹنے میں چند سیکنڈ بھی نہ لگائے۔

وہ باپ پاگلوں کی طرح اپنے ننھے شیر کو اٹھائے ہسپتال کے چکر لگانے لگا لیکن اس کو کیا خبر تھی کہ بچہ اس کے ہاتھوں میں دم توڑ چکا ہے۔ ایسے واقعات ہمارے ملک کے ہر شہر ہر علاقے میں رونما ہوتے ہیں۔
مجھے ایک گلا ان لوگوں سے ہے جو ڈور کو قاتل کہتے ہیں کہ قاتل دوڑ نے نوجوان کی جان لے لی, جبکہ ڈور کو قاتل بنانے والے ہم خود ہیں, ڈور بناتے وقت ایسی ایسی چیزوں کا استعمال کرنا جو انسان کو موت کے گھاٹ اتار دے ذمہ دار کون ؟؟ حکومت کی طرف سے اس خونی پتنگ بازی کے کھیل پر پابندی ہونے کے باوجود بھی نوجوان پتنگ بازی کو ترجیح دیتے ہیں, ذمہ دارکون ؟؟
بچے پتنگ بازی کرتے ہیں ماں باپ  منع نہیں کرتے تو ذمہ دار کون؟؟ ٹی وی چینلز پر اور سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کی خبریں دیکھ کر یا سن کر نظر انداز کر دینا ذمہ دار کون؟؟ قانون کی دھجیاں اڑانے والے ہم ہیں تو ذمہ دار کون؟؟
وہ لوگ جو پتنگ بازی کا شوق رکھتے ہیں, وہ لوگ جو اس شوق کو بڑھاوا دیتے ہیں,  وہ لوگ جو پتنگ اور ڈور کا کاروبار کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے بچوں کو اس کھیل سے نہیں روکتے ان لوگوں کے ہاتھوں میں کتنے ہی معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہونگے- ایک نوجوان جب پتنگ بازی کرتا  ہے تو اس کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ آج میرے ہاتھوں سے کسی کے گھر قیامت برپا ہو سکتی ہے, کسی ماں کی گود اجڑ سکتی ہے- کیا آپ سب لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ خدانخواستہ آپ کے گھر بھی ایسی قیامت ٹوٹے یا اپنے پیاروں کو اپنے ہی ہاتھوں میں دم توڑتا دیکھیں تو اس خونی کھیل سے باز آئیں گے۔


حکومت سے اپیل ہے کہ قانون توڑنے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں اور ایسے بے حس  لوگوں کو جو اس کھیل سے باز نہیں آتے سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ اس  گھناؤنے کھیل کو مکمل تور پر بند کیا جا سکے-
آخر میں ایک سوال چھوڑتی چلوں کہ قاتل کون ہے؟؟ ایک لمحہ سوچیے, جواب آپ کے سامنے موجود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :