غزوۂ بنو مصطلق

ہفتہ 17 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

شعبان سنہ ۵ ھ میں خبر پہنچی کہ بنو المصطلق کا سردار حارث بن عزار جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ اور وہ عرب کے دوسرے قبائل کو اپنا شریک بنا رہا ہے کہ آؤ مسلمانوں پر حملہ کرنے میں میرے ساتھ شریک ہو جاؤ ۔
آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے تحقیق حال کے لیۓ بریدہ بن حصیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اسلمی کو بطور ایلچی روانہ کیا ۔

حضرت بریدہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے واپس آکر اطلاع دی کہ حارث بن ضرار اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی پر تلا ہوا ہے ۔ اُس نے بہت سے قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے ۔ اور کسی طرح لڑائی اور حملہ سے باز آنا نہیں چاہتا ۔ ساتھ ہی خبر پہنچی کہ حارث اپنے لشکر کو لے کر روانہ ہونے والا ہے ۔
 آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا ۔

(جاری ہے)

مدینہ میں زید بن حارث کو عامل مقرر کیا گیا۔ اور لشکرِ اسلام کے ساتھ روانہ ہوۓ ۔ اس لشکر میں تیس گھوڑے تھے۔ جن میں دس مہاجرین کے اور بیس انصار کے تھے ۔ مہاجرین اور انصار کے جُدا جُدا علَم تھے ۔ انصار کا علَم سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں تھا ۔ اور مہاجرین کے علمبردار حضرت ابو بکر صدیق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو مقدمۃ الجیش مقرر فرمایا گیا ۔

چونکہ متواتر متعدد حملوں میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہوئی دیکھی تھی ۔ لہٰذا اس مرتبہ مالِ غنیمت کی طمع میں عبدالّٰلہ بن ابی بھی اپنی جماعتِ منافقین کے ساتھ شریک ہو گیا ۔
یہ منافق لوگ چونکہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے تھے ۔ اس لیۓ اُن کو تمام اسلامی حقوق حاصل تھے ۔ اور شریکِ لشکر ہونے سے وہ منع نہیں کئے جا سکتے تھے ۔ یہ سب سے پہلا موقع تھا کہ عبدالّٰلہ بن ابی اور اُس کی جماعتِ منافقین لشکر اسلام کے ساتھ بغرض قتال روانہ ہوئی ۔

جنگِ اُحد میں تو یہ لوگ راستے ہی سے لوٹ کر چلے آۓ تھے ۔ اور شریکِ جنگ نہ ہوۓ تھے ۔
حارث بن ضرار نے ایک جاسوس روانہ کیا تھا ۔ یہ جاسوس راستے میں اتفاقاً لشکرِ اسلام کے قریب پہنچا اور گرفتار ہو کر آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا ۔ جب اُس کا جاسوس ہونا تحقیق ہو گیا ۔ اور اسلام لانے سے بھی اس نے انکار کیا تو رسمِ عرب اور جنگی آئین کے موافق اُس کے قتل کا حکم صادر ہوا ۔

اور وہ قتل کیا گیا ۔ حارث کو جب اپنے جاسوس کے قتل ہونے اور آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچنے کی خبر پہنچی تو وہ بہت پریشان اور بدحواس ہوا ۔
آخر آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو حکم دیا ۔ کہ آپ آگے بڑھ کر ان کو اسلام کی  دعوت دیں ۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے آگے بڑھ کر اُن کو تبلیغ اسلام کی ۔

انھوں نے اس کا سختی سے انکاری جواب دیا ۔
اس کے بعد طرفین سے حملہ آوری ہوئی ۔ کفار کا علَم بردار حضرت ابو قتادہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا ۔ علمبردار کے گرتے ہی کفار کے پاؤں یک لخت اُکھڑ گئے ۔ اور وہ میدان چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگ گئے ۔ بہت سے آدمی کفار کے گرفتار ہوۓ ۔  بہت سا مالِ غنیمت بھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔


 
بنی نضیر جب سے جلا وطن ہو کر خیبر اور شام کی طرف چلے گئے تھے ۔ انھوں نے مسلسل اپنی کوششوں اور ریشہ دوانیوں کو مسلمانوں کے خلاف جاری رکھا ۔ انہیں کی کوششوں سے عرب کے مشرک  اور  یہودی قبائل جابجا مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیۓ آمادہ ہونے لگے اور انہیں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا ۔ کہ سرحدِ شام پر عیسائی فوجیں بھی مسلمانوں کو خطرے کی نظر سے دیکھنے لگیں ۔


 چونکہ مسلمانوں کے خلاف تمام ملک عرب اور تمام اعرابی قبائل برانگیختہ کر دیئے گئے تھے ۔ اور جا بجا تمام برِ اعظم عرب میں مسلمانوں کی بیخ کنی کے سامان ہونے لگے تھے ۔ لٰہذا آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ملک کے ہر حصے اور ہر قبیلے سے با خبر رہنے کی کوشش فرماتے تھے ۔ اور جہاں کہیں خطرے اور فتنے کے قوی ہونے کا احتمال ہوتا تھا ۔ اپنی اسلامی فوج کے ساتھ پہنچ کر اُس فتنے کو قوی ہونے سے پہلے دبا دیتے تھے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :