ہجرت کا پہلا سال

پیر 19 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ اور کوشش صَرف فرمائی ۔ وہ شہر کا امن و امان اور باشندوں کے تعلقاتِ باہمی کا خوش گوار بنانا تھا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو جاتے ہی محسوس فرمایا ۔ کہ مہاجرین کی جماعت مکہ سے آئی ہے ۔ وہ اہلِ مدینہ کے لیۓ باعثِ اذیت اور موجب پیچیدگی نہ ہونے پاۓ ۔

ساتھ ہی آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بھی خیال تھا کہ مہاجرین جنہوں نے دین کی خاطر انتہائی تکلیفیں  برداشت کی ہیں ۔ اور اپنے گھر ، وطن ، عزیز و اقارب ، مال و زر ، خاندان و برادری سب کو چھوڑ کر مدینہ میں آ پڑے ہیں۔ اور زیادہ پریشان و دل شکستہ نہ ہوں ۔
 چنانچہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام انصار و مہاجرین کو ایک جلسہ میں جمع کر کے اخوتِ اسلامی کا وعظ فرمایا اور مسلمانوں کے اندر مواخاۃ یا بھائی چارہ قائم کر کے مہاجرین و انصار کے تعلقات کو نہایت خوشگوار بنا دیا ۔

(جاری ہے)

عموماً ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار کے درمیان مواخاۃ  قائم ہو گئی ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے دینی بھائی خارجہ بن زبیر انصاری رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ہوۓ ۔ حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح کا بھائی چارہ سعد بن معاذ انصاری رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ سے ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کا سعد بن الربیع انصاری رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ سے ، حضرت زبیر بن العوام رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کا سلامہ بن سلامہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ سے ، حضرت عثمان بن عفان کا ثابت بن المنذر انصاری رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ سے رشتہ اخوت قائم ہوا ۔

اسی طرح طلحہ بن عبیدالّٰلہ اور کعب بن مالک رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ میں ، مصعب بن عمیر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اور ابو ایوب انصاری میں ، عمار بن یاسر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اور حذیفہ بن الیمان رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ میں بھائی چارہ مستحکم ہوا ۔
غرض ایک ایک مہاجر کا ایک ایک انصاری سے رشتہ اخوت قائم ہو گیا ۔ اس عہد مواخاۃ کو انصارِ مدینہ نے اس خلوص اور احتیاط کے ساتھ بنایا۔

کہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر تلاش نہیں کی جاسکتی ۔ تمام مہاجرین کو انصار نے حقیقی معنوں میں اپنا بھائی سمجھا ۔ اور بے دریغ اپنا تمام مال و اسباب ان کے سپرد کر دیا ۔ مہاجرین نے بھی اپنا بار اپنے انصار بھائیوں پر نہیں ڈالنا چاہا ۔ بلکہ انھوں نے نہایت جفاکشی اور مستعدی کے ساتھ محنت مزدوریاں کیں ۔ دوکان داری اور تجارتیں شروع کیں ۔ اور اپنی ضروریاتِ زندگی اپنی قوتِ بازو سے مہیا کرنے لگے ۔

اور اپنے انصار بھائیوں کے لیۓ موجبِ تقویت بن گئے۔
ایک قابلِ تذکرہ واقعہ ہجرت کے پہلے سال کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام باشندگانِ مدینہ کے درمیان جن میں یہود و مشرکین وغیرہ سب شامل تھے ۔ ایک عہد نامہ مرتب فرمایا ۔ اور سب نے اس پر بخوشی دستخط کئے ۔ اس عہدنامہ میں بہت سی شرائط شامل تھیں ۔ کہ مدینہ پر جب کوئی بیرونی دشمن حملہ کرے گا ۔

تو تمام مدینہ والے مل کر اُس کی مدافعت اور مقابلہ کریں گے ۔ ایک شرط یہ تھی کہ یہودان مدینہ قریش مکہ یا اُن کے حلیفوں کو مسلمانوں کے خلاف پناہ نہ دیں گے ۔ ایک شرط یہ تھی کہ باشندگانِ مدینہ میں کوئی شخص کسی دوسرے کے دین و مذہب اور جان و مال سے تعرض نہ کرے گا ۔ یہ بھی ایک شرط تھی کہ باشندگانِ مدینہ میں کوئی دو فریق کسی بات پر آپس میں جھگڑیں ۔

اور خود نہ سُلجھا سکیں ۔ تو انکا ناطق فیصلہ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم صادر فرمائیں گے ۔ جس سے کسی کو انحراف و انکار نہیں ہو گا۔
نیز یہ شرائط بھی تھیں  کہ جنگ کے مصارف اور فوائد میں تمام باشندگانِ مدینہ بحصہ مساوی شریک ہونگے ۔ جن قبیلوں یا قوموں سے مدینہ کے یہودیوں کا معاہدہ ہے ۔ اور وہ یہودان مدینہ کے دوست ہیں ۔ مسلمانانِ مدینہ بھی ان کو اپنا دوست سمجھیں گے اور دوستوں کی طرح ان کی رعایت کریں گے ۔

اسی طرح جو قبیلے مسلمانوں کے دوست ہیں ۔ مدینہ کے یہودی بھی اُن کے ساتھ دوستانہ سلوک کریں گے ۔ مدینہ کے اندر کشت و خون کرنا حرام سمجھا جاۓ گا ۔ مظلوم کی امداد سب پر فرض ہو گی  ۔ وغیرہ ۔
اس معاہدہ کی تکمیل کے بعد آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے کوشش فرمائی کہ مدینہ کے اردگرد کے علاقوں میں رہنے والے قبیلوں کو بھی اس معاہدہ میں شامل کیا جاۓ ۔

تاکہ بدامنی اور آۓ  دن کی خوں ریزی کا بکلی استحصال ہو جاۓ ۔ چنانچہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ وُدّان تک جو مکہ و مدینہ کے درمیان ہے ۔ اسی غرض کے لیۓ سفر فرمایا اور قبیلہ بنی حمزہ بن بکر بن عبد مناف کو اس معاہدہ میں شریک فرما کر ان کے سردار عمرو بن مخشی سے دستخط کراۓ ۔ کوہِ بواط کے لوگوں کو بھی شریکِ معاہدہ کیا ۔ ینبوع کی طرف مقام ذی العشرۃ میں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے اور بنو مدلج سے بھی اس معاہدہ پر دستخط کرواۓ ۔


آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچتے ہی ایسی کوششیں اختیار فرمائیں ۔ کہ امن و امان اور رفاہِ خلائق کو ترقی ہو ۔ اور لوگ دینِ اسلام کو اچھی طرح اطمینان سے سمجھنے کا موقع  پائیں ۔ ابھی یہ کوششیں شروع ہی تھیں اور مدینہ کے تمام نواحی قبائل پوری طرح شریکِ معاہدہ نہ ہونے پاۓ تھے ۔ کہ مدینہ کے اندر خفیہ اور مدینہ کے باہر سے دشمنوں نے حملے شروع کردیئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :