ہجرت کا چوتھا سال ۔ قسط نمبر1

جمعرات 5 اگست 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

یکم محرم سنہ ۱۲ ھ کو آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس خبر پہنچی ۔ کہ مقام قطن میں قبیلہ بنی اسد کے بہت سے مفسد جمع ہو گئے ہیں ۔ اور مسلمانوں پر حملہ کا قصد رکھتے ہیں ۔ طلحہ بن خویلد اور سلمہ بن خویلد اُن کے سردار ہیں ۔ اس خبر کو سُن کر آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو سلمہ مخزومی کو ڈیڑھ سو مسلمانوں کی جمیعت کے ساتھ روانہ کیا ۔

کہ ان شریروں کی گوشمالی کریں ۔ جب سلمہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ قطن پہنچے ۔ تو معلوم ہوا کہ دشمن مسلمانوں کے آنے کی خبر سُن کر پہلے ہی فرار ہو گیا ۔ دشمن کے کچھ مویشی مسلمانوں کے ہاتھ آۓ ۔ اُن کو لے کر ابو سلمہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ مدینہ واپس آۓ ۔
 وادئ عرفات کے قریب عرفہ ایک مقام ہے ۔ وہاں سفیان بن خالد ہذلی ایک سخت کافر رہتا تھا ۔

(جاری ہے)

اُس نے کفار کو جمع کرنے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں شروع کیں ۔ اس کی ان تیاریوں کی خبریں آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس متواتر پہنچنی شروع ہوئیں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ۵ محرم سنہ ۲ ھ کو سفیان بن خالد ہذلی کی جانب عبد الّٰلہ بن انیس رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو روانہ کیا ۔ عبدالّٰلہ بن انیس دن کو چھپتے رات کو چلتے ہوۓ مقامِ عرفہ پہنچے ۔

وہاں پہنچ کر کسی ترکیب سے اس کا سر کاٹ لیا۔ اور وہ سر لے کر صاف بچ کر نکل آۓ ۔ اٹھارہ دن کے بعد ۲۳ محرم سنہ۴ ھ کو مدینہ پہنچے ۔ اور وہ سر آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں میں ڈال دیا ۔
ماہِ صفر سنہ۴ ھ میں قریش مکہ نے عضل و قارہ ( برادر بنو اسد ) کے سات آدمیوں کو آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ۔ انھوں نے مدینہ پہنچ کر آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہماری ساری قوم نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔

آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ساتھ سکھلانے والے معلمین بھیج دیجیئے ۔ کہ وہ ہم کو اسلام سکھائیں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب کرام میں سے دس اور بقول ابن خلدون چھ آدمیوں کو ہمراہ کر دیا ۔ مرثد بن ابی مرثد غنوی یا عاصم بن ثابت بن ابی الافلح کو اس بزرگ جماعت کا سردار مقرر فرمایا۔
جب یہ لوگ سفر کرتے ہوۓ قبیلہ ہذیل کے ایک تالاب موسومہ رجیع پر پہنچے۔

تو ان غداروں نے قبیلۂ ہذیل کے دو سو نوجوانوں کو بلا لیا ۔ یہ قبیلہ بھی پہلے ہی سے شریکِ سازش تھا ۔ مسلمانوں نے جب اپنے آپ کو کفار کے گروہ میں محصور پایا ۔ تو وہ فوراً جرأت کر کے قریب کی پہاڑی پر چڑھ گئے ۔ اور ان کا مقابلہ شروع کیا ۔ کفار نے ان دس آدمیوں کو آسانی سے گرفتار کرنا دشوار سمجھ کر دھوکے سے کام لینا چاہا ۔ اور کہا کہ ہم تو صرف تم کو آزما رہے تھے کہ اگر اہلِ مکہ نے مقابلہ کیا ۔

تو تم ان کے مقابلے میں ٹھہر سکو گے یا نہیں ۔ مسلمانوں نے ان کے قول و اقرار پر اعتبار نہ کیا ۔ بالآخر مسلمانوں کے دو آدمیوں کو وہ زندہ گرفتار کر سکے ۔ باقی کفار سے لڑ کر شہید ہو گئے ۔
ان دونوں گرفتار ہونے والے بزرگوں کے نام  خبیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ بن عدی اور زید بن الدشنہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ تھے ۔ ان دونوں کو وہ مکہ میں لے گئے ۔

قریش نے گرفتار کرنے والوں کو کافی صِلہ دے کر دونوں کو حارث بن عامر کے گھر میں چند روز بھوکا پیاسا قید رکھا ۔ ایک روز حارث کا چھوٹا سا بچہ چُھری لیۓ کھیلتا ہوا حضرت خُبیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے پاس پہنچ گیا ۔ انھوں نے بچے کو اپنے زانوں پر بٹھا لیا ۔ اور چُھری لے کر الگ رکھ دی ۔ بچے کی ماں نے جب دیکھا ۔ کہ بچہ قیدی کے پاس پہنچ گیا ہے اور تیز چُھری بھی وہیں موجود ہے ۔

تو وہ بے اختیار چیخ مار کر رونے لگی ۔ حضرت خبیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ۔ کہ میں تمھارے بچے کو ہرگز قتل نہ کروں گا ۔ تم مطمئن رہو ۔
چند روز کے بعد حضرت زید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو صفوان بن امیہ نے لے لیا۔ اور اپنے باپ کے ( جو بدر میں قتل ہوا تھا ) خون کا عوض لینے کے لیۓ اپنے غلام نسطاس کے سپرد کر دیا ۔ کہ حدودِ حرم سے باہر لے جا کر قتل کرے۔

وہ حضرت زید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو باہر لے گیا قریش اور اہلِ مکہ اس قتل کا تماشا دیکھنے کے لیۓ گروہ در گروہ آ آ کر جمع ہو گئے اور حضرت زید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو شہید کر دیا گیا ۔ حضرت خبیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو حجیر بن ابی اباب نے لے لیا تھا ۔
حضرت زید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے بعد حضرت خبیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ قتل گاہ میں لاۓ گئے ۔

تو انھوں نے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور یہ اجازت مل گئی ۔ انھوں نے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی ۔ بعد نماز انھوں نے مشرکین سے کہا کہ میں نماز کو بہت طویل کرنا چاہتا تھا ۔ مگر محض اس خیال سے کہ تم یہ نہ کہو کہ قتل سے ڈرتا ہے اور ڈر کر نماز کے بہانے دیر لگاتا ہے ۔ میں نے نماز جلدی جلدی پڑھ لی ہے ۔ مشرکوں نے حضرت خبیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو سُولی پر لٹکا دیا ۔ اور ہر طرف سے نیزوں نے ان کے جسم کو کچوکے دینا اور چھیدنا شروع کیا ۔ اسی طرح زخم دار ہوتے ہوتے ان کی روح قالب سے پرواز کر گئی ۔ حضرت خبیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے جس بہادری کے ساتھ جان دی ہے اس کی مثالیں تاریخِ عالم میں کہیں دستیاب نہیں ہو سکتیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :