
بیانات اور اعلانات بجا مگر اقدامات۔۔۔۔؟؟
منگل 31 مارچ 2020

مظہر اقبال کھوکھر
اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایک ترقی پذیر ملک کے شہری ہونے کی وجہ سے پاکستانی قوم کو دوہری اذیت کا سامنا ہے ایک طرف ہمیں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنا ہے اور دوسری طرف بھوک کا اذیت ناک وائرس منہ کھولے کھڑا ہے کیونکہ وطن عزیز کی پچاس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جن کی روزانہ آمدنی ایک امریکی ڈالر کے برابر ہے ۔ ملک کو درپیش معاشی صورتحال اور بھوک ، غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے ملک کی کثیر آبادی کا گزر اوقات انتہائی مشکل ہوتا ہے جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول انتہائی کٹھن ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
میرا اپنے کاروبار کے حوالے سے زیادہ تر ایسے ہی غریب ، دیہاڑی دار ، مزدور ، محنت کش اور عام لوگوں سے واسطہ رہتا ہے جو دن بھر کام کرنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدنی سے شام کے کھانے کے لیے آٹا گھی دال سبزی لے کر جاتے ہیں عام حالات میں جس دن کام نہیں ملتا یا کم ہوتا ہے تو ان کے چہروں پر چھائی افسردگی دیکھ کر دل دہل جاتا ہے ان کی آنکھوں میں تیرنے والی نمی ان کی بےبسی کا نوحہ پڑھ رہی ہوتی ہے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوۓ جب وہ کہتے ہیں سئیں۔
سچ پوچھیں تو ان کی اس بےبسی کا جواب شاید ہی کسی کے پاس ہو کہ جن کے بچے راہ تک رہے ہوں کہ بابا شام کو آئیں گے اور ہم کھانا پکائیں گے اور بابا کی جیب میں چند روپے بھی نہ ہوں ۔ مگر آج ایک دن نہیں دو دن نہیں بلکہ پچھلے دس دن سے نظام زندگی معطل ہے ہر قسم کا کاروبار، مارکیٹیں، دوکانیں ، صنعتیں ، فیکٹریاں اور تعمیراتی کام بند ہے ایسی صورتحال میں غریب ،محنت کش ،مزدور ، دیہاڑی دار اور سفید پوش لوگوں کی حالت کیا ہوگی یہ سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں نہیں معلوم ان کے گھروں میں چولہا جلتا بھی ہے یا نہیں ، کچھ پکتا بھی ہے یا نہیں کچھ پکانے کو بھی ہے یا نہیں۔۔۔؟
یقینا" دنیا بھر کی طرح ملک اس وقت غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہے مگر سوال یہ ہے حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہی ہے پنجاب حکومت نے لاک ڈاون کے آٹھویں روز کورونا ایمرجنسی سے متاثرہ خاندانوں کی فوری امداد کے لیے انصاف امداد پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں ابتدائی طور پر ایک ارب روپے کی رقم 25 لاکھ خاندانوں کے لیے منظور کی ہے جو کہ فی خاندان 4 ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے ۔ جبکہ دوسری طرف وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوۓ ایک بار پھر مکمل لاک ڈاون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ حکمت عملی سے لڑنی پڑے گی ہم ہر طریقے سے کورونا وائرس کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ لاک ڈاون میں بیروزگار ہو کر گھروں میں بیٹھ جانے والوں کا احساس نہیں کریں گے تو لاک ڈاون کامیاب نہیں ہوسکے گا انھوں نے بتایا کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کی ریجسٹریشن کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے جو کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور کورونا متاثرین کی مدد کے لیے پاک فوج اور انتظامیہ سے مل کر کام کرے گی۔
ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں مگر اس حقیقت کو بھی قطعا" فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ لاک ڈاون بے شک جزوی ہے مگر بیروزگاری کُلی ہے ، غربت کُلی ہے ، بھوک کُلی ہے اور عوام کی بے بسی بھی کُلی ہے سوال یہ ہے کہ حکومت کے اعلانات ، بیانات اور خطابات کا سلسلہ مزید کتنا طویل ہے اقدامات کا مرحلہ کب آئے گا کیونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ابھی تک غریب اور سفید پوش لوگوں کے گھروں میں راشن پہنچانے کا میکنزم تیار نہیں کر سکیں۔ ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہو سکی کہ لوگوں نے گھروں میں راشن پہنچانے یا بحالی امداد پہنچانے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جائے گا ۔
ہر تقریر ہر پریس کانفرنس اور بیان میں اربوں روپے کے فنڈز جاری کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں مگر پچھلے دس دنوں میں جن لوگوں کو گھروں میں بھوک کے ڈیرے ہیں جو کورونا کے ساتھ ساتھ بھوک کے ساتھ لڑ رہے ہیں غربت کے ساتھ لڑ رہے جو محرومی اور بےبسی کے ساتھ لڑ رہے کیا صرف وعدوں ، دعووں اور اعلانات و بیانات سے ان کے پیٹ بھرے جا سکتے ہیں ۔ یقینا" یہ ایک تشویشناک پہلو ہے اگر تاخیر کا یہ سلسلہ اگلے کئی روز تک جاری رہا تو صورتحال انتہائی سنگین رخ اختیار کر سکتی ہے اور ملک میں کورونا سے کہیں بڑھ کر بھوک کا وائرس ایک بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر سر اٹھانے والے اس سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کا آغاز کریں اور بیروزگار ہوجانے والے محنت کش مزدور اور سفید پوش لوگوں کے گھروں میں راشن کی فراہمی کو یقینی بنائیں اس حوالے سے سیاسی و مذہبی جماعتوں ، سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں اور صاحب ثروت اور مخیر حضرات کو بھی آگے بڑھنا چاہئے اور مشکل کی اس گھڑی غریب اور سفید پوش لوگوں کو تنہاء نہیں چھوڑنا چاہئے یقینا" ہماری تھوڑی سی توجہ ایک بڑے طوفان کا رخ موڑ سکتی ہے ماضی کی طرح ہمیں ایک بار پھر ایک ہوکر حالات کا مقابلہ کرنا ہے منزل زیادہ دور نہیں بس ہمت حوصلے اور احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر گر جانے والوں کو سہارا دینا ہے اور آگے بڑھ کر ہاتھ تھام لینا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مظہر اقبال کھوکھر کے کالمز
-
ڈی سی لیہ اور تبدیلی
جمعرات 3 فروری 2022
-
صوبے کے نام پر سیاست
بدھ 26 جنوری 2022
-
بات تو سچ ہے۔۔۔
جمعرات 20 جنوری 2022
-
اجتماعی بے حسی کا نوحہ
بدھ 12 جنوری 2022
-
خاموش انقلاب نہیں دھاڑتا طوفان
بدھ 5 جنوری 2022
-
ایک اور سال
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
تبدیلی آنے سے پہلے جانے لگی
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایک اور بحران۔۔۔۔
منگل 14 دسمبر 2021
مظہر اقبال کھوکھر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.