
دو سال بعد۔۔۔۔!!
منگل 11 اگست 2020

مظہر اقبال کھوکھر
یہ سب کچھ عین روایت کے مطابق ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ اگلے پانچ سال تک جو کام انتہائی دلجمعی اور لگن کے ساتھ کرتی ہے وہ سابقہ حکومت پر تنقید ہوتی ہے یعنی ہمیں خزانہ خالی ملا ، ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا ، معاشی پالیسیاں انتہائی ناقص تھیں ، سابقہ حکمران ملک کو لوٹ کر کھا گئے وغیرہ۔
(جاری ہے)
تاہم وزیر اعظم کی تقریر کا غور طلب پہلو یہ ہے کہ انھوں نے خوشخبری دی ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے وعدے پورے کریں۔ یقینا" یہ پہلو باعث مسرت و اطمینان ہے کہ دو سال بعد ہی سہی انہیں وعدے پورے کرنے کا خیال تو آگیا ہے۔ حالانکہ الیکشن سے قبل اور پھر کامیابی کے بعد جس شد و مد سے ہمارے وزیر اعظم وعدوں کی بھر مار اور تکمیل کے اعلانات کر رہے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید ان کے ہاتھ کوئی چراغ لگ گیا ہے جسے رگڑ کر وہ سارے مسئلے حل کر دیں گے مگر جب کچھ وقت گزرا تو چراغوں میں روشنی نہ رہی حکومت نے رگڑا تو لگایا مگر چراغ کو نہیں بلکہ عوام کو۔۔۔۔۔ اور عوام اس رگڑے میں پستے چلے گئے۔
اب بھی صورتحال یہ ہے وطن عزیز ایک زرعی ملک ہے جس میں گندم اور کماد وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں مگر اس وقت نا تو آٹا مل رہا ہے نا ہی چینی دستیاب ہے ۔ سابقہ حکومتوں سے لیکر اب تک حکومت میں بیٹھے اعلٰی عہدیداروں تک کئی ایک شوگر ملوں کے مالک موجود ہیں مگر حالت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو ہدایت دینی پڑی کہ عوام کو 70 روپے کلو چینی کی فراہم کی جاۓ۔ واضح رہے 80 فیصد شوگر ملیں انہی سیاستدانوں کی ہیں جو دن رات عوام کی ہمدردی کی مالا جپتے نظر آتے ہیں ان کے بیانات سنیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان سے بڑھ کر کوئی عوام کا ہمدرد نہیں مگر عوام سے ہمدردی کا یہ عالَم ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں چینی 90 سے 95 روپے کلو مل رہی ہے ۔ جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز جو "ریاست مدینہ" کے ماتحت عوام کو مناسب قیمت پر اشیاء ضروریہ فراہم کرنے کے پابند ہیں وہاں بھی ہفتے میں ایک بار چینی آتی ہے یعنی آتی ہے تو بس آتی ہے پھر نہیں معلوم کہاں جاتی ہے جبکہ سستے بازاروں میں بھی چینی 70 روپے کلو کے بینر لگے ہوۓ ہیں اور لوگ شناختی کارڈ ہاتھوں میں پکڑے قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔
ابھی کل ایک جاننے والا شناختی کارڈ دکھا کر چینی لایا تو آگ بگولا ہوتے ہوۓ بولا کیا اسی تبدیلی کے لیے ہم نے ووٹ دئیے تھے سابقہ حکومتوں میں تو صرف قطاریں لگی ہوتی تھیں اور آج قطاریں بھی ہیں اور شناختی کارڈ بھی، مجھے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے بندہ گھر میں شناختی کارڈ دیکھا کر کھانا لے رہا ہو۔ اس ووٹر کا غصہ اپنی جگہ مگر اس پر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ شکر کریں حکومت نے آئی ڈی کارڈ مانگا ہے ڈی این اے ٹیسٹ نہیں مانگا۔
اب سننے میں آرہا ہے کہ وزیر اعلٰی پنجاب نے خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں کے خلاف نوٹس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اللہ خیر کرے ہمارے حکمرانوں نے آج تک جس چیز کا بھی نوٹس لیا ہے وہ پھر زمین پر نہیں ملتی بلکہ آسمان تک پہنچ جاتی ہے اب نہیں معلوم مہنگائی کا نوٹس لینے کے بعد یہ کہاں تک پہنچتی ہے۔
جہاں تحریک انصاف کی حکومت کے وعدوں، پچاس لاکھ گھر ، ایک کروڑ نوکریوں ، جنوبی پنجاب صوبہ اور دیگر وعدوں کا تعلق ہے۔ جنہیں حکومت نے 100 دنوں میں پورا کرنا تھا اگر دو سال بعد ان کا خیال آگیا ہے تو پھر امید کی جاسکتی ہے اگلے تین سالوں میں ان کا آغاز بھی ہو جاۓ گا اور شاید بی آر ٹی کی طرز پر بہت جلد پایہ تکمیل تک بھی پہنچ جائیں مگر اس سے قبل ہمیں اس بات پر خوشی کے شادیانے بجانا ہونگے ایک دوسرے کو مبارکباد دینی ہوگی تحریک انصاف کے انصاف پر داد دینی ہوگی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھنے ہونگے کہ دو سال بعد ہی سہی حکومت نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ اب وہ وقت آچکا ہے جس کے لیے ہم نے وعدے کئے تھے کہ ان کو اب پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مظہر اقبال کھوکھر کے کالمز
-
ڈی سی لیہ اور تبدیلی
جمعرات 3 فروری 2022
-
صوبے کے نام پر سیاست
بدھ 26 جنوری 2022
-
بات تو سچ ہے۔۔۔
جمعرات 20 جنوری 2022
-
اجتماعی بے حسی کا نوحہ
بدھ 12 جنوری 2022
-
خاموش انقلاب نہیں دھاڑتا طوفان
بدھ 5 جنوری 2022
-
ایک اور سال
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
تبدیلی آنے سے پہلے جانے لگی
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایک اور بحران۔۔۔۔
منگل 14 دسمبر 2021
مظہر اقبال کھوکھر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.