شدت پسندی ، سیاست اور سوشل میڈیا

بدھ 16 دسمبر 2020

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

یوں تو وطن عزیز کبھی بھی شدت پسندی سے مکمل طور پر محفوظ نہیں رہا شدت پسندی اور انتہا پسندی کسی نا کسی شکل نہ صرف ہمیشہ موجود رہی ہے بلکہ اپنے مضر اور خطرناک اثرات کے ذریعے ہمارے ملک کو نقصانات سے دوچار کرتی رہی ہے ایک طویل عرصے تک فرقہ وارانہ شدت پسندی نے ملک کو سنگین صورتحال سے دوچار کئے رکھا جس کے نتیجے میں نا صرف بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ پورا ملک عدم استحکام کا شکار ہوا اور پھر اسی شدت پسندی اور انتہا پسندی کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی نے ایک عشرے تک ملک کو آگ اور خون کی جنگ میں دھکیل دیا جس کے نتیجے میں ملک کو معاشی طور پر اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا اور لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں عورتوں ، بچوں، بزرگوں اور سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نزرانے پیش کئے پوری قوم نے ہمت حوصلے اور ثابت قدمی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا آج ہم دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پانے میں کامیاب تو ہوچکے ہیں مگر اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں آج بھی انتہا پسندانہ سوچ موجود ہے اور اس کو پروان چڑھانے والے بھی اپنا کام اسی طرح کر رہے ہیں یہ بات درست ہے کہ آج لوگ کھل کر سامنے نہیں آتے مگر مذہب کے نام پر قتل و غارت گری سے گریز بھی نہیں کیا جاتا۔

(جاری ہے)


سچ تو یہ ہے کہ شدت پسندی ، انتہا پسندی ، عدم برداشت ، تعصب اور نفرت پر مبنی سوچ کو ہم کسی ایک طبقے تک محدود نہیں کر سکتے بلکہ پورے معاشرے میں اور ہر طبقے میں اس طرح کی تنگ نظری عدم برداشت اور انتہا پسندی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور یہ روپ بدل بدل کر سوسائٹی کو تباہی کی طرف دھکیلتی رہتی ہے اگر آج ہم اپنی سیاست اور سیاسی رویوں کو ہی سامنے رکھ لیں تو انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم عدم برداشت نفرت اور شدت پسندی کے ایسے خوفناک کانٹے بچھا رہے ہیں کہ جنہیں جنتے جنتے ہماری نسلیں بیت جائیں گی۔


اس سے قبل نوے کی دہائی میں ملک ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوا تھا جب پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسّلم لیگ ن ایک دوسرے کی حریف تھیں مگر یہ سیاسی اختلاف سیاسی دشمنی کا روپ دھار چکا تھا اس وقت بھی سیاسی رہنماء نفرت کی سیاست میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ نا صرف کارکنوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا بلکہ مخالفت براۓ مخالفت میں اخلاق باختگی کی تمام حدیں پار کر لیں غیر اخلاقی بیہودہ الزامات اور کردار کشی ہماری سیاست کی پہچان بن کر رہ گئی تھی اس وقت سوشل میڈیا تو نہیں تھا اور الیکٹرانک میڈیا بھی صرف پی ٹی وی تک محدود تھا جو حسب روایت حکومت کے گن گاتا رہتا تھا جبکہ پرنٹ میڈیا تھا مگر اخلاقی اقدار ابھی باقی تھی سیاستدان جس طرح کی زبان استعمال کرتے تھے کچھ ڈھکے چھپے انداز میں سامنے آتی تھی تاوقتیکہ سیاستدان پمفلٹ بازی اور اشتہار بازی کی سطح تک نہ گر جائیں مگر افسوس ایسا ہوا بی بی شہید اور انکی والدہ کی نازیبا تصاویر کے پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کئے گئے مگر آج جب جو  سیاسی شدت پسندی دیکھنے کو مل رہی ہے پہلے سے کہیں  زیادہ خطرناک اور خوفناک ہے سوشل میڈیا نے سیاسی شدت پسندوں اور انتہا پسندوں کے لیے یہ کام آسان کر دیا ہے  سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ اپنے سوشل میڈیا ونگز اور بڑے بڑے گروپ بنا رکھے ہیں جو سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس اور ایپز کے ذریعے منظم انداز میں کام کرتے ہیں خاص طور پر ان کا کام مخالف جماعت کی رہنماؤں کی کردار کشی الزام تراشی اور گالم گلوچ ہوتا ہے جبکہ اپنی جماعت کے خلاف لکھنے والے صحافیوں کی بھی وہ ماں بہن ایک کر دیتے ہیں۔

یوں تو سماجی ربطوں کی تمام ویب سائٹس پر یہ کام ہوتا ہے مگر سب سے بڑا پلیٹ فارم ٹویٹر ہے جہاں کوئی بھی ٹرینڈ سیٹ کرنے کے لیے پہلے مشاورت کی جاتی ہے پھر ہیش ٹیگ کے زریعے دھڑا دھڑ ٹوئیٹ کی جاتی ہیں ابھی پچھلے دنوں لاہور جلسے سے قبل پاکستان میں ٹویٹر پر پینل میں گردش کرنے والے ٹرینڈ دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں جس طرح کے ٹرینڈ سیٹ کئے انہیں مکمل لکھتے ہوۓ بھی شرم آتی ہے مگر انہیں اس طرح کے غیر اخلاقی اور بیہودہ  ٹرینڈ کرتے ہوۓ ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوئی یہاں تک کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کی جماعتوں میں سیاسی اور غیر سیاسی  خواتین کے لیے "رنڈی " اور ایک دوسرے قائدین کے لیے  "دلے " کے نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے اور پھر ان بیہودہ اور غیر اخلاقی لفظوں کے ساتھ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ٹوئیٹ کی گئیں۔

یقیناً انہی جماعتوں کے کارکنوں اور حامیوں نے یہ ٹوئیٹ کیں سوال یہ ہے ہماری سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی کس طرح کی تربیت کر رہی ہیں انہیں کیا سکھایا جارہا ہے سیاسی جماعتوں اور انکے قائدین کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے یہ ملک کسی ایک جماعت کا ملک نہیں ہم سب کا ملک ہے یہ بچے یہ نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں آگے چل کر انھوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے آج اگر سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی جنگ میں سوشل میڈیا کے محاذ پر انہیں استعمال کر رہی ہیں تو کم از کم اتنا تو لحاظ رکھنا چاہئے کہ اختلاف کے آداب سے واقف کیا جاۓ ان کی اخلاقی تربیت کی جاۓ انہیں اختلاف اور نفرت میں فرق سمجھایا جاۓ انہیں تنقید اور تذلیل کا فرق بتایا جاۓ کیونکہ یہ ملک اب مزید کسی بھی قسم کی انتہا پسند اور شدت پسندی کا متحمل نہیں ہوسکتا اختلاف جمہوریت کا حسن ہوتا ہے مگر اختلاف میں بھی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اور نفرت کی دلدل میں اتنا بھی نیچے نہیں گرنا چاہے کہ پھر اوپر اٹھنا مشکل ہوجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :