سینٹ کا سارا الیکشن ایک طرف اور یوسف رضا گیلانی کی جیت ایک طرف ویسے یہ کیا ہوگیا جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باوجود ہار جانا لمحہ فکریہ ہے یہ اسی طرح ہوا ہے جس طرح چیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد میں ہوا تھا ساری دنیا کہہ رہی تھی اپوزیشن کے پاس سینٹ میں واضح اکثریت ہے صادق سنجرانی کا بچنا بہت مشکل ہے لیکن حکومت کہہ رہی تھی کچھ نہیں ہو گا صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو پوری اپوزیشن کی بڑی سبکی ہوئی پاکستان میں اپوزیشن کے ساتھ ایسا ہونا کوئی انہونی نہیں لیکن حکومت کے ساتھ ایسا ہوجانا کسی انہونی سے کم نہیں اس بار ساری اپوزیشن کہہ رہی تھی گیلانی جیت جائیں گے لیکن حکومت کے پاس عددی اکثریت تھی جس کے باعث یہ ناممکن لگتا تھا وہ کونسا جادو ہے جو جب جی چاہے پٹاری سے جو چاہے نکال لے یہ بے ضمیری آخر کب تک چلے گی کب تک ہم دنیا میں تماشہ بنتے رہیں گے اور اپنے اخلاقیات کا جنازہ اٹھاتے رہیں گے وہ جو چاہے حسن کرشمہ ساز کرے قومی اسمبلی میں حکومت کے جس امیدوار کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اس کو ہروا دیا گیا ان ہی ووٹروں نے حکومت کی دوسری امیدوار کو جتا دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو سبق سیکھانا مقصود تھا یوسف رضا گیلانی کی جیت سے اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے اور انھیں نفسیاتی بالادستی حاصل ہو گئی ہے کیا اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہے گی اس بارے میں اپوزیشن کوئی فیصلہ کرتی وزیر اعظم نے فوری طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کے فیصلہ کا اعلان کر دیا اب اپوزیشن کی ترجیح ہو گی کہ وہ سینٹ میں یوسف رضا گیلانی کو چیرمین بنوا لے بظاہر سینٹ میں کسی اکیلی سیاسی جماعت کے پاس اکثریت نہیں ہے لیکن حکومتی اتحادیوں کا مل کر پلڑا بھاری ہے چیرمین سینٹ کا الیکشن بھی بہت دلچسپ ہو گا اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس حکومت کو گھر بجھوانے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو میرا خیال ہے کہ ابھی صرف حکومت کو جٹھکا دینا ہی مقصود تھا وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن سیاسی طور پر انھیں جو ڈینٹ پڑ چکا ہے اسے ریکور کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا میں رات حسن نثار صاحب کے پاس بیٹھا تھا ان کا کہنا تھا کہ جہاں اور کافی سارے محرکات ہیں وہیں حکومتی امیدوار کے خلاف نفرت بھی اہم ہے سیاستدانوں نے آئی ایم ایف کے وائسرائے کو مسترد کردیا ہے یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کی عوامی تحریک تو کارگر ثابت نہیں ہو سکی لیکن پارلیمانی گیم نے انھیں ایک نئی زندگی دے دی ہے میرا خیال ہے کہ اب فوکس پارلیمنٹ ہو گی عمران خان کو اپنے چوزے سنھبالنا ہوں گے آخر میں ایک سوال کہ جو کچھ ہوا ہے کیا اس سے سیاستدانوں کا قد بڑھا ہے یا وہ مزید بونے ہو گئے ہیں کیا اس سے جمہوریت مضبوط ہوئی ہے یا بے توقیر ہوئی ہے کیا اس سے ہمارے اخلاقی رویے آشکار ہوئے ہیں یا بہتری ہوئی ہے اس بارے میں سوچیے گا ضرور۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔