انصاف کون دے گا؟

پیر 15 اپریل 2019

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

پولیس نے ایسا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے جو اس کی کارکردگی کے روشن پہلوں پر سوالیہ نشان ہے پولیس اس امر کی قطعاً پروا ہ نہیں کرتی کہ عوام اسے نفرت کی نگا ہ سے دیکھتی ہے پولیس ڈیپارٹمنٹ بلاشہ ایک اہم ترین قومی اداراہ ہے،اس ادارے کاذہن میں آتے ہی امن و امان اور تحفظ کااحساس ہوتا ہے لیکن شومئی قسمت ہمارے ملک میں اس محکمہ کی گنگا ہی الٹی بہتی ہے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں اگر پولیس ڈیپارٹمنٹ نہ ہوتو اس معاشرے میں جنگل کا قانون ہو ۔

اس بات کا بھی ا عتراف کھلے دل کے ساتھ کیا جا سکتا ہے کہ قانون کے نفاذاور قانون کی سربلندی کے لیے پولیس کے دلیر،جرآتمند آفسران وملازمین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن ان سب باتوں کے باوجود پولیس کومعاشرے میں عزت و احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا،بیشتر لوگ پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے طرز عمل سے خوش نہیں آئے روز پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا میں بعض پولیس آفسران و ملازمین کا رویہ عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اس سے عوام کے دلوں میں اتنی قربانیوں کے باوجود نفرت جنم لینے لگ جاتی ہے دوسری طرف اعلی عدالتوں میں بعض پولیس آفسران کی کارکردگی کے بارے میں انتہائی سخت ریمارکس پاس کیے جاتے ہیں تھانہ میں آج بھی بیشتر آفسران و ملازمین کالب ولہجہ وہی چنگیزخان اور ہلاکو خان کے جیسا ہی ہے ہم اس بات سے قطعاً اختلاف نہیں کرتے کہ ہمارے اوکاڑہ میں ڈی پی او اوکاڑہ اطہر اسماعیل کا شمار انتہائی قابل ذہین ، ایماندار اور فرض شناس پولیس افسران میں ہوتا ہے اطہر اسماعیل کا نام آتے ہی ذہن میں ایک بہترین پولیس افسر کا تاثر ابھرتا ہے ڈی پی او اکاڑہ اطہر اسماعیل نے ایک نجی صحافتی تقریب میں بتایا کہ میں خودبھی زمانہ طالب علمی میں صحافت سے منسلک رہا ہوں انہوں نے بتایاکہ میں نے روزنامہ خبریں میں چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد اور ایڈیٹر امتنان شاہد کے زیر سایہ کام کیا ہے میں صحافیوں کے مسائل اچھی طرح سمجھتا ہوں اور اس لیے میں صحافیوں کو اپنا دوست جانتا ہوں کیونکہ صحافیوں نے ہمیشہ جرائم پیشہ عناصرکی سرکوبی میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے انہوں نے اپنی سروس میں مختلف ڈسٹرکٹ میں بطور ڈی پی او شپ فرائض سر انجام دیئے اور یہ جہاں بھی تعینات رہے انہوں نے منشیات فروشوں رہزنوں اور نا جائزاسلحہ رکھنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیے رکھا اور متعدد ملزمان کو گرٍفتار کرواکر پابندٍسلاسل کروایا اور عوام کا لوٹا ہوا مال برآمد کرواکر ان کو واپس دلوایا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے ہمیشہ عوام اور پولیس کے باہمی روابط کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کی ہے ڈی پی او اطہر اسماعیل نے اپنے ماتحت سٹاف کو ہدایت دی کہ شدت پسندوں اور جرا ئم پیشہ عناصر پر کڑی نظر رکھیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعائت نہ کی جائے اور ایسے عناصر کو فوری طور پابند سلاسل کریں تاکہ ان کو کڑی سے کڑی سزا مل سکے اور یہ دوسروں کے لیے نشا ن عبرت بنیں فرائض میں غفلت برداشت نہیں کی جائے گی اور غافل اہلکار یا تو محکمہ پولیس چھوڑجائے یا اپنا تبادلہ کروا کر کسی اور ڈسٹرکٹ میں چلے جائے کیونکہ میرے سٹاف میں ناہل کام چور اہلکار کی کوئی گنجائش نہیں اسی وجہ سے دیگر مقامات کے مقابلے میں ہمارے ڈسٹرکٹ اوکاڑہ میں جرائم کا گراف بہت نیچے آرہا ہے پر تھانہ اے ڈویثرن کے علاقہ میں جرائم ہیں کہ کم ہونے کی بجائے خطرنک حد تک بڑھ رہے ہے جن میں ڈکیٹی ، رہزنی ، چوری کی متعدد وارداتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں شریف شہری لاکھوں روپے نقدی موٹر سائیکل ، موبائل فونز، طلائی زیور وغیرہ سے محروم ہورہے ہیں اور دن ڈیہاڑے لٹ رہے ہیں راقم الحروف ابھی یہ کالم لکھ رہا تھا کہ تھانہ اے ڈوثیرن کے علاقہ میں سٹیڈیم روڈپر دن ڈیہاڑے بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے گن پوائنٹ پر مقامی اخبار کے ایڈیٹر کے ساتھ ڈکیتی کی واردات کی جس میں ایک عدد موبائل فون اور کچھ رقم لوٹ لی گئی معاشرے کی آنکھ ،کان اور ملک کا چوتھا ستون کہلوا نے والے ادارے کے ایک کارکن اور اوکاڑہ پریس کلب کے سینئر ممبر کے ساتھ ہونے والی ڈکیتی کی وارادت کی ایف آئی آر 7دن بعدمتعلقہ ڈی ایس پی سٹی کی مداخلت سے درج ہوسکی اور ملک پاکستان کے چوتھا ستون کے ممبر طارق نوید کوایس ایچ او کی طرف ظاہر یہ کروایا گیا کہ ہمارا FIR درج کرنا آپ پر احسان عظیم ہے جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ 17مارچ کو ہونے والی اس ڈکیٹی کیایف آئی آر 25 مارچ کو درج کی گئی اور FIR درج ہونے کے بعد مقامی صحافی کو لوگوں کی طرف سے مبارک باد کے میسج موصول ہوتے رہے کہ حیرت ہے کہ آپ نے ایف آئی آر درج کروا لی، پولیس کی جانب سے اب تک اس پر طفل تسلیوں کے علاوہ کوئی کاروائی نہ ہوسکی متعلقہ ایس ایچ او ، اور ان کے سٹاف کے کانوں سے جوں تک نہیں رینگ رہی اور جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواں انتظامات ہوتے نظر نہیں آ تے ۔

یہ بات بھی یقینا افسوس ناک ہے کہ پولیس اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں آج بھی تھانے عوام کے لیے دارالامان نہیں جہاں با اثر ملزمان کو تو کرسی ملتی ہے لیکن امن پسند شہریوں کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے پولیس افسران ہوں یا ملازمین سیاسی شخصیات کی سر پرستی میں تمام اصولوں کو با لائے طاق رکھ دیتے ہیں حوالات کی حالت زار ایسی کے مویشیوں کا باڑہ بھی اس سے صاف ہوتا ہے ہر تھانے کی کارکردگی دوسرے تھانے سے بھی بدترہے مقدموں کے چالان پیش نہیں کئے جاتے FIRدرج کرنے کے لئے سفارش کی ضرورت ہوتی ہے بلا وجہ لوگوں کو پکڑ کر بغیراندراج کے حبس بیجا میں رکھا جاتا ہے چوری ڈکیٹی یا کسی اور واردات پرپولیس کا سب سے آخر میں پہنچنا معاشرے میں عام سی بات ہو گئی ہے مدعی اور ملزم کے لواحقین کو تنگ کرنا تو پولیس اپنا فرض سمجھتی ہے جہاں تشدد کے نت نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں جہاں پر قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور اختیارات سے تجاوز کیا جاتا ہے جہاں اخلاقی اقدار کو پامال کیا جاتا ہے ایک عرصہ سے عوام کو نوید سنائی جاتی رہی کہ تھانہ کلچر تبدیل ہوجائے گا اور پولیس کو حقیقی معنوں میں عوام کا خادم او ر محافظ بنایا جائے گا لیکن نہ ابھی تک تھانہ کلچر تبدیل ہوا اور نہ پولیس اپنے آپ کو عوام کا خادم ا ور محافظ سمجھنے پر آمادہ ہے اگر پولیس جانبداری کا مظاہرہ کرے تو معاشرے میں قانون کی سر بلندی کا تصور چکنا چور ہو جائے عوام کا قانون کے محافظوں سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ہمیں انصاف کون دے گا۔

۔۔۔۔؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :