جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا

پیر 15 جون 2020

Mian Muhammad Ashraf Kamalvi

میاں محمد اشرف کمالوی

مجھے ابھی دفتر سے گھر پہنچے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ مین گیٹ کی گھنٹی یوں بجائی گئی گویا کوئی بہت ہی ایمرجنسی میں ہے۔ جلدی سے باہر نکلا تو قبلہ بڑے حاجی صاحب کے معتمد خاص چہرے پرگہری مسکراہٹ لئے میرے منتظر تھے۔مجھے دیکھتے ہی آگے بٹرھے، مصافحہ کیا اور بڑے رازدارانہ انداز میں بتایا کہ قبلہ بڑے حاجی صاحب گزشتہ کئی دنوں سے آپکو یاد فرما چکے ہیں۔

آپکا موبائل فون بھی مسلسل آف جا رہا تھا،چنانچہ یہ اطلاع لیکر میں خود حاضر ہوا ہوں کہ قبلہ بڑے حاجی صاحب اپنے اکیسویں حج مبارک کی ادائیگی کے لئے چند یوم کے بعد کوچ فرمانے والے ہیں،لہذا آپکو اُنکی زیارت کیلئے جلد حاضر ہو جانا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ بعد میں اُنکی ناراضگی کا سدّباب کرنا آپکے لئے مشکل ہو جائے۔

(جاری ہے)

اگرچہ قبلہ نے تمام بٹرے قومی اخبارات اور ٹی وی چینلزپر اپنے اکیسویں حج مبارک پر جانے کی خبریں بھی چلوا دیں ہیں، تاکہ مصیبتوں،مایوسیوں،محرومیوں اورگردش دوراں کے مارے دعاؤں کے طالب زیادہ سے زیادہ ضرورت مند آپ کی قدم بوسی کرکے دعاؤں کی التجائیں کر سکیں،جس پر قبلہ خود بھی بہت سکون قلب محسوس کرتے ہیں۔

آپ سے چونکہ میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے،لہذا آپکو خود مطلع کرنا میرا فر ص اوّلین تھا، جو کہ میں نے بخوبی ادا کر دیا ہے۔ اس پر میں نے قبلہ کے معتمدخا ص کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور یہ بتا کر اُنکے علم میں اضافہ بھی کر دیا کہ میں قبلہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کیلئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں حاضر ہوا تھا تو مجھے قبلہ کے ناجائیز قبضہ کرکے بر لب جُو بنائے گئے ایکڑوں پر محیط وسیع و عریض ڈیرہ کے انچارج نے بتایا کہ قبلہ بڑے حاجی صاحب اپنے ایک سو گیارویں اور آپ اپنے تیسرے عمرہ مبارک کی ادائیگی کیلئے حجازمقدّس تشریف لے کر گئے ہوئے ہیں۔

بحرحال میں انشااللہ قبلہ کے اکیسویں حج مبارک پر روانگی سے پہلے ضرور حاضر ہو جاؤں گا۔دو دن کے وقفے سے میں جیسے ہی قبلہ کے ڈیرے پر پہنچا تو معتمد خاص نے آگے بڑھ کر میرا پُرجوش استقبال کیا اور بتایا کہ قبلہ بڑے حاجی صاحب اس وقت ایک اعلٰی سطحی بزنس اجلاس کی صدارت فرما رہے ہیں، جس میں اُن کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بزنس ایمپائر کے تمام شعبوں کے سربراہان شریک ہیں، لیکن میں آپکی تشریف آوری کی اطلاع ابھی کئے دیتا ہوں۔

چند ہی لمحوں بعد میری حیرت کی انتہا نہ رہی ،جب قبلہ بڑے حاجی صاحب سر پر سفید کپڑے کی موریوں والی ٹوپی پہنے، دائیں ہاتھ میں بڑے بڑے سبز منکوں والی تسبیع گھماتے، ا جلاس روک کربہ نفس نفیس میری عزّت افزائی کیلئے باہر تشریف لائے۔ایک زور دار معانقہ فرمایا اورمیرا ہاتھ تھامے اجلاس میں ہی لے گئے اور کمال شفقت سے مجھے اپنی صدارتی کرسی کے برابرہی بٹھا لیا اور اپنی بزنس ایمپائر کے مختلف شعبوں کے سربراہان سے یوں مخاطب ہوئے،آج ہم سب کیلئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ملک کے معروف کالم نگار میاں اشرف کمالوی صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں جنکا لکھا ہوا ایک ایک لفظ اقتدار کے ایوانوں میں اپنا نقش چھوڑ جاتا ہے۔

اس پر شرکاء اجلاس نے ڈیسک بجا کر میرا خیر مقدم کیا۔ بعد ازاں قبلہ نے بتایا کہ آج کے اس اعلٰی سطحی اجلاس میں میرے بزنس کے جن شعبوں کے سربراہان شریک ہیں، اُن میں شعبہ منشیات فروشی برائے بیرون ملک، شعبہ جعلی ڈگریاں برائے اندرون ملک، شعبہ ملاوٹ، شعبہ قبضہ مافیا، شعبہ جعلی ادویات،شعبہ رینٹ اے قاتل،شعبہ کنٹرول پالیٹکس،شعبہ جعلی ویزے، شعبہ انعقاد تقریبات خورد ونوش برائے انتظامیہ و عدلیہ و وڈیو بنانا، شعبہ سمگلنگ،شعبہ بھتہ خوری،شعبہ اغواء برائے تاوان،شعبہ سٹاک ڈالرز،شعبہ جعلی بنک اکاؤنٹس،شعبہ منی لانڈرنگ اور شعبہ فروختگی ڈیزل شامل ہیں۔

میرے چہرے پر ناگواری کے تاثرات کو بھانپتے ہوئے قبلہ بڑے حاجی صاحب نے نہائت پیار و محبت سے میرے گھٹنوں کو دباتے ہوئے فرمایا، دیکھو کمالوی صاحب، ہم اپنے ان تمام شعبوں کے ذریعے صرف اور صرف خلق خدا کی فلاح و بہبود پر فوکس کرتے ہیں۔منشیات ہم بیرون ملک سمگلنگ کرتے ہیں،جس سے پاکستانی عوام اس لعنت سے محروم رہتی ہے،ملک میں زر مبادلہ الگ سے آتاہے۔

کم قیمت جعلی ڈگریاں فراہم کرکے ہم عوام کو تعلیم کے تاجروں کی بھاری فیسوں سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ اُنکے وقت کی بچت بھی کرتے ہیں۔کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرکے ہم یہ چیزیں غریب مزدور،ضرورت مند عوام کو ارزاں نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔جن پلاٹوں ، مکانوں،دوکانوں کے مالکان فوت ہو جاتے ہیں،ہم اُن پر زبردستی قبضہ کرکے اُن پر بڑے بڑے فلاحی منصوبے جیسے ہسپتال،ڈسپنسریاں، سستے شادی ہالز،لنگرخانے وغیرہ بناتے ہیں، جہاں کم وسائل رکھنے والوں سے برائے نام چارجز لئے جاتے ہیں جبکہ امیروں کی خوب کھال اتاری جاتی ہے۔

جعلی ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ اثر کرنے والی ادویات مارکیٹ میں فراہم کرکے ادویات کی کمی نہیں ہونے دی جاتی تاکہ اصلی ادویات کی قیمتیں بڑھنے نہ پائیں۔جن ظالموں، جابروں نے غریب، مزدور، مظلوم عوام کا جینا حرام کر رکھّا ہے،ہم مناسب فیس لیکر رینٹ اے قاتل کا کام بھی کرتے ہیں، جس سے ان لوگوں کی دعائیں بھی ہمارے حصّہ میں آتی ہیں جسکا کوئی نعم البدل نہیں۔

جعلی ویزے فراہم کرکے ہم قوم کے نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوا کراُن کے خاندانوں کو مالی آسودگی فراہم کرتے ہیں، یوں بیروزگاری کے خاتمے کے سلسلہ میں ہماری خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ شعبہ کنٹرول پالیٹکس کے ذریعے ہم ہر الیکشن میں اپنے مخصوص گھوڑوں پر بھاری رقوم خرچ کرکے اُن کوپارلیمنٹ میں پہنچاتے ہیں،جہاں وہ ہمارے بظاہر غیر قانونی بزنس کو بھر پور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

اگر کوئی سابق حکمران محض اپنی انا کی تسکین کیلئے کسی بے قصور چئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتمادپیش کرتا ہے تو ہم اپنے گھوڑے فروخت کرکے اپنے وارے نیارے کر لیتے ہیں۔اسی طرح شعبہ انعقاد تقریبات خورد ونوش برائے انتظامیہ وعدلیہ و وڈیو بنائی، شعبہ سمگلنگ، شعبہ بھتہ خوری،شعبہ اغواء برائے تاوان،شعبہ سٹاک ڈالرز سے حاصل ہونے والی اربوں کی آمدنی سے صرف نوّے فی صد ہمارے استعمال میں آتی ہے،بقایا کی خطیر رقم سے دنیا بھر کے غریب عوام کیلئے لاتعداد رفاہی و فلاہی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔

جہاں تک شعبہ جعلی بنک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں ہمیں ناجائیز بدنام کیا جاتا ہے جبکہ ہم کھربوں روپے وطن عزیز میں واپس لا کر ملکی معیشت کو استحکام بخشتے ہیں۔قبلہ بڑے حاجی صاحب مزید گویا ہوئے کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ شعبہ فروختگی ڈیزل میرے تمام شعبوں میں ایک سفید ہاتھی کا درجہ رکھتا ہے۔

اس شعبہ میں بھی ہم نے صرف پی ٹی آئی کے جلسوں کی وجہ سے مار کھائی ہے،کیونکہ ان جلسوں میں ڈیزل ،ڈیزل کے نعرے سن کر ہم یہ سمجھے کہ ملک میں ڈیزل کی مانگ میں بہت اضافہ ہو گیا ہے،لہذا ہم نے بغیر کچھ سوچے سمجھے شعبہ ڈیزل قائم کرکے اربوں کا ڈیزل سٹاک کر لیا، یہ عقدہ تو بعد میں ہم پر کھلا کہ عوام ڈیزل کی ڈیمانڈ نہیں بلکہ اُس دو نمبر ڈیزل کو تہتّر کے آئین کے تناطر میں بُری طرح ریجیکٹ کر رہے تھے،جو انہیں گزشتہ اکتیس سالوں سے ایک سیاسی سازش کے ذریعے فراہم کیا جا رہا تھا۔

قبلہ بڑے حاجی صاحب کے اس انوکھے فلسفہء خدمت خلق خدا نے میرے چودہ طبق روشن کر دےئے،میں نے اپنی حیرانی و پریشانی پر قابو پاتے ہوئے مودبانہ عرض کی کہ قبلہ اگرچہ مجھے آپکے اس انداز خدمت عوام سے تو ہرگز اتفاق نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ مجھ سے چاہتے کیا ہیں؟ انہوں نے ایک بار پھر نہائت اپنائیت سے میرے دائیں گھٹنے کو دباتے ہوئے کہا، کمالوی صاحب، گزشتہ ایک سال سے آپ اپنے کالموں کے ذریعے جس طرح وزیر اعظم عمران خان صاحب کو گرانقدر صائب مشورے دے رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ آپ کی عمران خان صاحب سے بہت کُھلّی ڈُلّی گَل بات ہے۔

ہم پچھلے ایک سال سے اپنے بزنس کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ہمارے سو فی صد خدمت خلق کے کاموں کو شک بھری نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے، ہمارے سر اپاء خدمت بہت سے لوگوں کونیب نے ناجائز گرفتار کر لیا ہے،کئی ایک آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کی پاداش میں جیلوں میں بند ہیں،کئی جسمانی و جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں،اُنہیں طبّی سہولتیں ، گھر کا کھانا،ٹیلی ویژن، اخبارات، میٹرس اور مشقّتی تک فراہم نہیں کئے جا رہے۔

کارکنان سے ملاقاتوں پر سخت پابندی ہے، صرف فیملی کے چند افراد بمشکل مل پاتے ہیں۔ خود میرے جیسے متقی، پرہیزگار،حاجی،نمازی پر گرفتاری کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے۔کمالوی صاحب، آپ مجھے برسوں سے جانتے ہیں،ہمارا ان تمام شعبوں کو چلانے کا مقصد صرف اور صرف خدمت خلق خدا کرکے آخرت میں اپنے پروردگار کے سامنے سرخرو ہونا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان ہمیں مسلسل چور، ڈاکو،منی لانڈرز،لیٹرے اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہتا رہتا ہے۔

لیکن کمالوی صاحب، دنیا جانتی ہے، ہم اگر لُوٹتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں،کھاتے ہیں تو کھلاتے بھی ہیں۔ کل بھی ہمارا مقصدبائیس کروڑ عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنا تھا اور آج بھی ہم اسی عظیم مقصدکے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں تاکہ جنّت الفردوس میں اپنے دائمی محلات تعمیر کر سکیں۔ہمیں اپنی تو کوئی پرواہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے تو گزشتہ چالیس برسوں میں اندرون و بیرون ملک انگنت جائید ادیں اوربے شمار دولت جمع کر لی ہوئی ہے،ہماری تو آئندہ بائیس نسلیں بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر سکتی ہیں،ہمارا تو ہر بچّہ پیدا ہوتے ہی ارب پتی ہوتا ہے جبکہ بائیس کروڑ آبادی میں پیدا ہونے والا ہر بچّہ ڈیڑھ لاکھ کا مقروض ہوتا ہے۔

اپنی بات ذہن نشین کروانے کیلئے قبلہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مزید سمجھایا، اب دیکھو ناں کمالوی صاحب، اگر میرے یہ تمام شعبے دن رات خدمت خلق نہ کر رہے ہوتے تو میں ہر سال عیدالاضحی پر قربانی کا عظیم فریضہ ادا کرنے کیلئے طاق ہندسوں میں سترہ اونٹ،سترہ بچھڑے اور ستائیس بکرے کس طرح خرید سکتا تھا۔ آپ خود سوچیں، اتنے جانوروں کا گوشت میں نے اکیلے تو نہیں کھا لینا،ضرورتمندوں، غریبوں، مزدوروں، بے سہارا بیواؤں،یتیموں،مسکینوں، قیدیوں،کم وسائل رکھنے والے طالب علموں او ر نادار مریضوں میں ہی تقسیم کرنا ہے ناں۔

کمالوی صاحب، نیّتوں کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے،عمران خان نہیں، یہ سب میری صاف نیّت کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے کہ میرے ان تمام شعبوں کی کمائی سے قدرت نے ہر طرف رنگ لگا رکھّے ہیں، ورنہ تمہارا وہ یونیورسٹی کا استاد، کیا بھلا سانام ہے اسکا، ہاں یاد آیا، پروفیسر سر بلند آزاد، جو ہر وقت لوگوں کو اخلاقیات کے لیکچر دیتا رہتا ہے، جسے تم دنیاء علم و ادب کا بے تاج بادشاہ کہتے ہواور عقیدت و محبّت سے اسکے گھٹنوں کو چھو کر،اسکی آشیر بادلیکر پھولے نہیں سماتے، کل جب میں اپنے قربانی کے جانوروں کے جلوس کے ساتھ،اپنے خوشامدیوں سے مبارک بادیں وصول کرتا ہوا بڑے فخریہ اندازمیں گھر جا رہا تھا،تو میں نے دیکھا کہ تیرا وہ بیچارہ استاد پروفسرسر بلند آزاد ایک چھوٹا سا بکرا لئے جا رہا تھا،جسکی قربانی کرکے اُس نے گوشت تقسیم کیا خاک کرنا ہے کہ یہ تو اسکے اپنے خاندان کیلئے ہی ناکافی ہو گا ۔

لیکن ایک بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ اپنے اس چھوٹے سے بکرے بلکہ میمنے کے ساتھ سر کو بلند کرکے یوں چل رہا تھاجیسے قارون کے کسی خزانے کی چابی لیکر گھر جا رہا ہو۔ دوسری بات جس سے میں بہت دل گرفتہ ہوا وہ یہ کہ لوگ مجھ کھربوں پتی المعروف قبلہ بڑے حاجی صاحب کی نسبت اُس معمولی ماسٹر سے زیادہ عزّت و احترام کیساتھ مل رہے تھے۔ جو کہ کم ظرف اور حاسد لوگوں کی ایک بہت ہی گٹھیا حرکت تھی ، یار، آخر کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، ماناکہ میں میٹرک فیل ہوں لیکن میرا شمار عالم اسلام کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے ، میں ایک سو گیارہ عمرے کر چکا ہوں،اب اپنے اکیسویں حج مبارک پربھی جا رہا ہوں،لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ معاشرے میں میری دو ٹکے کی عزّت نہیں ہے ، تیسری بات جو میری سمجھ سے بالاتر تھی،وہ یہ کہ لوگوں کی آوازیں میرا پیچھا کر رہی تھیں کہ حق حلال کی کمائی سے جانوروں کے ریوڑ نہیں صرف ایک بکرا ہی خریدا جا سکتا تھا،مجھے غصّہ تو بہت آیا لیکن اپنے خوشامدیوں اور درباریوں سے یہ سن کردل کو تسلّی ہوئی کہ یہ ا س پروفیسر کے شاگرد وغیرہ ہیں جنکی تعداد دنیا بھر میں ہزاروں میں ہے۔

بعد ازاں قبلہ بڑے حاجی صاحب نے اپنی سفید موریوں والی ٹوپی اتار کر دوبارہ پہنی، بڑی سی تسبیع کے موٹے موٹے سبزمنکوں کو تیزی سے گھمایا اور التجا آمیز لہجے میں کہنے لگے،کمالوی صاحب،میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ میرے خدمت خلق خدا کے اس عظیم فلسفہ بلکہ مشن بارے ایک زوردار کالم لکھ کرعمران خان کو قائل کریں کہ وہ ہمارے بندوں پر قائم کئے گئے ہر قسم کے مقدمات ختم کرکے اُنہیں فی الفور رہا کردے۔

ہمیں کُھل ڈُل کے ساتھ عوام کی خدمت کا اسی طرح موقع فراہم کیا جائے جس طرح کہ ہم گزشتہ چالیس سالوں سے کرتے چلے آ رہے تھے،اگر اُس نے ایسا نہ کیا تو پھر یاد رکھیں کہ ہماری صرف ایک کال پر بائیس کروڑ عوام اپنا حساب بے باک کرنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں گی اور جمہوریت سخت خطرات سے دو چار ہو جائے گی ، اب تک تو ہم نے جیسے تیسے عوام کو کنٹرول کیا ہوا ہے ،کل کی ہم ضمانت نہیں دے سکتے۔

اور ہاں پرسوں میری حجازمقدس کیلئے اکیسواں فریضہ حج ادا کرنے کیلئے سیٹ کنفرم ہے۔انشااللہ بشرط زندگی اگر خدا نے میری رسّی یوں ہی دراز کئے رکھی،آپ اور آپکی پوری فیملی اور عزیز و اقارب کیلئے بیش قیمت تحائف لانا ہرگز نہیں بھولوں گا، بس میری گزارشات پر جلد عملدرآمد ہو جانا چاہیے، کیا خیال ہے، کمالوی صاحب، ایسا ہو جائیگا ناں ۔اس پر میں نے جلدی سے اپنا موبائل فون جیب سے نکالااور ایمر جنسی میسج کا بہانہ کرکے،قبلہ بڑے حاجی صاحب اور انکے بزنس کے مختلف شعبوں کے سربراہان کو حیران و پریشان چھوڑ کر خدا حافظ کہتا ہواتیزی سے ہال سے باہر نکل آیا۔

میری یوں اچانک روانگی پرباہر بیٹھے بہت سے لوگ خاص طور پر قبلہ کے معتمد خاص حکیم قدرت اللہ دھرم پوری حیرت و پریشانی کی تصویر بنے دور تک مجھے جاتا ہوا دیکھتے رہے۔کسی گستاخ نے تو یہ آواز تک بھی لگا دی کہ قبلہ بڑے حاجی صاحب، ان تلوں میں تیل نہیں، اس لئے، جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :