کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب

پیر 1 جون 2020

Mian Muhammad Ashraf Kamalvi

میاں محمد اشرف کمالوی

کورونا وائرس کے باعث کئی دنوں بعد کچھ ضروری امورنپٹانے دفتر جانے کیلئے ابھی میں گاڑی میں بیٹھ ہی رہا تھاکہ قبلہ بڑے حاجی صاحب کے معتمد خاص حکیم قدرت اللہ دھرم پوری اپنی مرزا کی بائیسکل پر ہانپتے کانپتے آتے دکھائی دےئے۔ گاڑی کے قریب پہنچ کر بذریعہ چھلانگ سائیکل سے اترتے ہی انہوں نے مصافحہ کیلئے ہاتھ آگے بڑہایا تو میں نے اشارے سے انہیں منع کیا کہ ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم عمران خان نے تونامور عالم دین مولانا طارق جمیل کا نہایت عزّت و احترام سے استقبال کرنے کے باوجود انسے ہاتھ نہیں ملایا، بے شک جناب سراج الحق نے مولانا سے نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ عقیدت و محبت سے انکے ہاتھ پر بوسہ بھی دے ڈالا، لیکن اسکے باجود میں آپ سے ہاتھ نہیں ملا سکتا کیونکہ ملک کے باشعورو غیو ر بائیس کروڑ عوام جماعت اسلامی کو مسترد اورتحریک انصاف کو اپنے اعتماد کا ووٹ دے چکے ہیں۔

(جاری ہے)


 اب اگر تحریک انصاف اپنے کئے گئے وعدوں کا تیس فیصد بھی پورا کر گئی،مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرکے سرخرو ہو گئی تو آئندہ الیکشن میں عوام عمران خان کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت سے کامیاب و کامران بنائیں گے کیونکہ پیپلز پارٹی روٹی، کپڑا، اور مکان دینے میں نا کامی کے باوجود اقتدار میں آتی رہی ہے۔ اس وقت ویسے بھی پورے ملک میں وزیر اعظم کے عہدے کیلئے عمران خان کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔

۔۔
سپریم کورٹ عمران خان کو صادق و امین قرار دے چکی ہے،آل شریف اور زرداروں کا ٹولہ ضمانتیں حاصل کر لینے کے باوجود عوام کی نظروں میں سرٹیفائیڈ چوروں کا گروہ قرار پا چکا ہے، جسکے مقدّر میں اب سوائے ذلّت و رسوائی کے اور کچھ نہیں ہے۔خیر دھرم پوری صاحب نے مصافحہ کیلئے بڑھایا گیا اپنا ہاتھ واپس کھینچتے ہوئے مجھے بتایا کہ قبلہ بڑے حاجی صاحب اپنے ایک سو تیرویں عمرہ مبارک کی ادائیگی کے بعد گزشتہ رات اپنے محل میں واپس تشریف لے آئے ہیں، بلکہ تشریف کیا لے آئے ہیں، اس بار تو کورونا کی بدولت حجاز مقدّس سے بڑے بے آبرو کرکے نکال دےئے گئے ہیں، اور انہیں رات بھر یہ غم ستاتا رہا ہے کہ اس بار پتہ نہیں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ وہ حجاز مقدّس میں گزار بھی پائیں گے یا نہیں۔

 
دھرم پوری صاحب نے مزید کہا کہ قبلہ بڑے حاجی صاحب کا گزشتہ پچاس سالوں سے یہ معمول رہا ہے کہ جب بھی رمضان المبارک کی آمد آمد ہوتی ہے، قبلہ اپنے سر پر سفید کپڑے کی موریوں والی ٹوپی پہن لیتے ہیں اور دو چار روزے وطن عزیز میں رکھنے کے بعد جنرل ضیاالحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حجاج مقدّس روانہ ہو جاتے ہیں۔میں نے قبلہ کے معتمد خاص حکیم قدرت اللہ دھرم پوری کو تسلّی دی کہ انشااللہ خالق کائنات کرم کریگا اور کورونا کے اس عذاب الہی سے جلد ہی نجات مل جائے گی اور یہ بھی وعدہ کیا کہ میں دوچار روز میں قبلہ سے شرف ملاقات کیلئے انکے در دولت پر حاضری دونگا۔

چند روزکے بعد جیسے ہی میں قبلہ کے محل کے مین گیٹ پر پہنچا تو قبلہ کے دربانوں نے مجھے پہچانتے ہوئے بغیر تلاشی لئے داخلے کی اجازت دیدی۔کچھ ہی دیر بعد میری حیرت کی انتہا نہ رہی،جب میں نے دیکھا کہ قبلہ بڑے حاجی صاحب سر پر اپنی روائتی سفید کپڑے کی موریوں والی ٹوپی پہنے، دائیں ہاتھ میں بڑے بڑے سبزمنکوں والی تسبیح لئے،اپنے کچھ ملازموں کو اعٰلی کوالٹی کی مغلظات سے نوازتے ہوئے میری عزّت افزائی کیلئے بہ نفس نفیس تشریف لا رہے ہیں۔

 
قبلہ نے آگے بڑھ کرہاتھ ملانے کی کوشش کی تو میں نے بھی وزیراعظم عمران خان کی طرح اپنا دائیاں ہاتھ دل پر رکھنے پر ہی اکتفا کیا، جسکا قبلہ نے برا تویقینا منایا لیکن اپنے جذبات کو کنڑول کرتے ہوئے مجھے اپنے کمرہ خاص میں لے گئے۔ روائتی خاطر مدارت کے بعد انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا، کمالوی صاحب،یہ کورونا شرونا کا کیا چکر ہے،جسکی بدولت زندگی میں پہلی بارابھی میں اطمینان سے عمرہ کی ادائیگی بھی نہیں کر سکا تھا کہ جلد از جلدحجاز مقدّس چھوڑنے کا حکم صادر کر دیا گیا۔

 میں نے جواب دیا، قبلہ مجھے تو یہ عذاب خداوندی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا،اس عذاب کو ٹالنے کیلئے پوری دنیا کو صدق دل سے اللہ تبارک تعالٰی سے اپنے گناہوں اور کمیوں،کوتاہیوں کی معافی مانگ لینی چاہیے تاکہ اللہ تعالٰی ہم سب پر اپنا فضل و کرم فرما دے، اس پر قبلہ نے با آواز بلند آمین کہا اور گویا ہوئے، کمالوی صاحب، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سسکتی اور تڑپتی ہوئی انسانیت کی خدمت کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں میرا ایک بہت وسیع نیٹ ورک ہے، جس میں ہسپتال، ڈسپنسریاں،تعلیمی ادارے،فلاحی مراکز، ایمبولینس سروس، غریب یتیم بچیوں کیلئے جہیز، انکی شاد ی کے انتظامات، دیہاڑی دار مزدور طبقہ اور ہسپتالوں میں داخل مریضوں کیلئے دو وقت کھانے کی فراہمی اور بیواؤں کیلئے ماہانہ راشن کے انتظامات قابل ذکر ہیں۔

 میں نے کہا، جی ہاں قبلہ یہ سب کچھ میرے علم میں ہے۔ اس پر قبلہ کی آنکھوں میں ایک خاص چمک صاف دیکھی جا سکتی تھی، گویا انکا تیر عین نشانے پر جا کر لگ چکا تھا۔فرمایا، کمالوی صاحب، اتنے بڑے نیٹ ورک کو چلانے کیلئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہوتا ہے، لہذا میں نے کورونا وائرس کی آڑ میں فنڈ ریزنگ کیلئے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں۔میں نے پاکستان بھر کی تمام فیکٹریوں ، ہول سیل ڈیلروں سے فیس ماسک، ہینڈ سینی ٹائزرز، زندگی بچانے والی ادویات، کورونا وائرس کی تشخیص کیلئے استعمال ہونے والی کیٹس اور اشیائے خورد و نوش کا ایک بہت بڑا ذخیر ہ سستے داموں خرید کردور دراز واقع اپنے گوداموں میں چھپا دیا ہے، جو کہ کچھ عرصہ کے بعدسونے کے بھاؤ ہاتھوں ہاتھ فروخت کر دیا جائیگا۔

جس سے دنیا بھر میں موجود میری دولت میں بے پناہ اضافہ ہو جائیگا، حکومتی اداروں کے تمام قابل ذکر افسران برسوں سے میرے پے رول پر ہیں، اسلئے ماضی میں مجھے کبھی بھی ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا، لیکن اب یہ افسران عمران خان کی شہہ پر مجھے آنکھیں دکھا رہے ہیں۔مجھے ہر وقت اپنے گوواموں پر نہ صرف چھاپے کا ڈر رہتا ہے بلکہ سرکاری اداروں میں موجود میرے خیرخواہوں کی مخبری کے مطابق میری گرفتاری بھی جلد متوقع ہے۔

 
میں نے کہا لیکن قبلہ میں تو اس سلسلہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اس پر قبلہ کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ پھیل گئی جو میری بات کی سختی سے تردید کر رہی تھی۔قبلہ نے میرا دائیاں ہاتھ اور اپنی بائیں آنکھ دباتے ہوئے رازدارانہ انداز میں فرمایا، کمالوی صاحب،یہ چکمہ کسی انجان کو دیجئے گا،میں توآپ کی اپروچ اور لمبے ہاتھوں سے بخوبی واقف ہوں، گزشتہ کئی سالوں سے آپ جناب عمران خان صاحب کے حق میں جس طرح کالم پر کالم لکھ رہے ہیں، ووٹ کو عزّت دینے کی آڑ میں ووٹر کو ذلیل و خوار کرنے والوں، ملازمہ کے پرس سے برآمد شدہ وصیّت نامہ کی بدولت صدر پاکستان کے عہدے تک پہنچنے والوں،کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کے پروٹول اور منسٹر کا لونی کے بنگلہ نمبر بائیس کے فراق میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے والے ڈیزل فروشوں کی جو درگت آپ نے بنائی ہے، عمران خان کو اسکی بہت قدر ہے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ میرے رفاہی، فلاہی اور سماجی کاموں کے وسیع و عریض نیٹ ورک کو اپنے ایک زوردار کالم کے ذریعہ ایسا اجاگر کریں کہ حکومتی ادارے میرے خلاف کسی بھی کاروائی کی جسارت نہ کر سکیں، ویسے بھی میں نے جن ضروری اشیاء کا سٹاک کیا ہے اسکا سارا منافع میں نے اپنی جیب میں تو ڈال نہیں لینا، اسکا دس بارہ فیصد خدمت خلق کے اپنے عظیم ایشان منصوبوں پر بھی تو خرچ کرنا ہے، اس لئے آپ کو بھی اس کار خیر میں اپنا بھر پور حصّہ ڈالکر ثواب دارین حاصل کرنا چاہیے۔

اسکے ساتھ ہی قبلہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے کندھوں کو دباتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی، کمالوی صاحب، میں جانتا ہوں کہ آپ لفافہ صحافی ہرگز نہیں ہیں ،لیکن پھر بھی میری عزّت افزائی کیلئے یہ بلینک چیک قبول فرما لیجئے اور ہاں کورونا وائرس سے نجات حاصل کرنے،اللہ تعالٰی کے حضور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور خلق خدا کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی التجاؤں کیلئے آج بعد از نماز عشاء میرے اسی محل میں ایک عظیم ایشان دعائیہ محفل کا اہتمام کیا گیا ہے ، جس سے خطیب دنیا،امام خطباء، عالمی فتوٰی فروش حضرت مولانا علامہ پیر شاطر فسادوی خطاب بھی فرمائیں گے، جس میں آپکی شرکت میرے لئے باعث صد افتخار ہوگی۔

قبلہ بڑے حاجی صاحب اس وقت حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے جب میں نے قبلہ کا دیا ہوا بلینک چیک حقارت سے میز پر پھینکا اوریہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا،
 کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب،
شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :