اپنے اپنے مفادات نے ہم کو یکجا کیا

جمعرات 1 اکتوبر 2020

Mian Muhammad Ashraf Kamalvi

میاں محمد اشرف کمالوی

وطن عزیز پاکستان کی گزشتہ چالیس سالہ تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ یہاں اشرافیہ کے طبقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی مجرم اپنے جرم کو اس کی اصل کے مطابق تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکاری رہا ہے۔ نواب محمد احمد خان قتل کیس ذوالفقارعلی بھٹو پر ڈالا گیا تو بھٹو صاحب نے اپنی عوامی اور بین الاقوامی مقبولیت کے زعم میں اس کو پہلے تو پرکاہ کے برابر حیثیت بھی نہ دی۔

ان کے وکیل یحییٰ بختیار بلاشبہ ایک عالی دماغ تھے۔ لیکن وہ بھی اس کیس کو اس کی اصل روح کے مطابق لڑنے میں ناکام رہے، ان کا سارا زور اسے سیاسی کیس ثابت کرنے پر صرف ہوتا رہا۔ جب یہ کیس اپنے آخری مراحل میں داخل ہوا تو پھر بھٹو صاحب سمیت ان کے سب حمایتیوں کو اندازہ ہوا کہ اب تیر کمان سے نکل چکا ہے اور چڑیاں سارا کھیت چگ چکی ہیں۔

(جاری ہے)

یہی حال نواز شریف کا پاناما کیس میں رہا، ان کے خواجہ آصف جیسے نادان دوستوں نے انہیں یقین دلایا کہ یہ چند ہفتوں کا شور شرابہ ہے، میاں صاحب، قوم جلد ہی اسے بھول جائے گی۔

جن کی خوشامد میں آ کر میاں صاحب نے قومی اسمبلی میں جھوٹ پر مبنی وہ تقریر کر ڈالی، جس میں کہا گیا تھا، کہ حضور یہ ہیں وہ ذرائع، جن سے لندن کے فلیٹ خریدے گئے۔ بعدازاں سپریم کورٹ میں کبھی قطری خط کا سہارا لیا گیا تو کبھی مریم نواز کی طرف سے جعلی دستاویزات پیش کی گئیں۔ لیکن جب نیب کے وکلاء نے ان پر چڑھائی شروع کر دی، تو یہ کہہ کر اپنی جگ ہنسائی کروائی گئی کہ قومی اسمبلی کی تقریر تو میاں صاحب کی سیاسی تقریر تھی، اثاثوں کے متعلق بتایا گیا کہ اس کا علم ان کے والد میاں شریف کو ہوگا جو کہ وفات پا چکے ہیں یا ان کے بیٹوں کو ہوگا جو کہ بیرون ملک رہتے ہیں اور وہیں کے شہری ہیں, پاکستان کے قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے, یا پھر قطری شہزادوں کو علم ہوگا کہ انہوں نے ان کے والد سے پارٹنرشپ کی تھی، جس کے منافع سے کبھی سٹیل مل لگائی گئی اور کبھی فروخت کی گئی، کبھی فلیٹ خریدے گئے، کبھی بیچے گئے۔

گویا جھوٹ کے پاؤں نہیں تھے۔ نتیجتاً نااہل قرار پا گئے اور جی ٹی روڈ پر جمع ہونے والے چند ہزار لوگوں سے استفسار کرتے پھرے، کہ مجھے کیوں نکالا، حالانکہ اگر اس کیس کو بھی جھوٹ کی بنیادوں پر لڑنے کی بجائے حقائق کی روشنی میں محنت کر کے جیسی تیسی بھی منی ٹریل پیش کر دی جاتی تو نتائج اس قدر بھیانک نہ نکلتے۔ کہ بڑے میاں صاحب کو بیٹی سمیت جیل کی ہوا کھانی پڑی، بقول شریف خاندان ان کے والد بہت امیر کبیر آدمی تھے، ان کا بہت بڑا بزنس تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ لوگ سیاست میں نہیں آئے تھے۔

تو پھر تو منی ٹریل پیش کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، لیکن اپنے آپ کو پاپولر عوامی لیڈر سمجھنے والا تین بار کا وزیراعظم صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں کوٹ لکھپت جیل میں بیٹی سمیت قید رہا، لیکن خواجہ آصف کے بقول سو بندے بھی اکٹھے نہیں ہوئے، جو میاں صاحب کی گرفتاری پر موثر احتجاج کر پاتے۔ اب یہی رویہ شہباز شریف نے اپنا لیا ہے۔ نیب ان سے پوچھ رہی ہے کہ جناب آپ کے اثاثے انیس سو نوے میں اکیس لاکھ تھے، ان میں بائیس گنا اضافہ کیسے ہوا، بیس سو اٹھارہ میں یہ بڑھ کر ساڑھے سات ارب تک کیسے پہنچ گئے، آپ کے اکاؤنٹ میں بے شمار ٹی ٹیاں کیسے اور کہاں سے آئیں، فلیٹس کے لئے پیسہ کہاں سے آیا، جعلی کمپنیاں کیسے بنیں، ان میں ناجائز دولت کو کیسے گھمایا پھرایا گیا، لیکن افسوس کی بات ہے کہ شہباز شریف صاحب سوال گندم جواب چنا دے رہے ہیں، کہ میں نے بحثیت وزیراعلی اس ملک و قوم کی بڑی خدمت کی ہے، میں نے فلاں منصوبے میں قوم کے اتنے کروڑ بچائے۔

فلاں پروجیکٹ میں اتنے ارب بچائے، میں نے لیپ ٹاپ تقسیم کیے، میں ساری ساری رات جاگا ہوں کہ اس قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکوں، اگر میں خدا کے حضور پیش ہو جاؤں تو اللہ تعالی بھی مجھے میری ان خدمات کے عوض معاف کر دے گا, لہذا مجھ سے میری کرپشن پر سوال مت کرو، یہ میرے بیٹوں کا مسئلہ ہے، میں کچھ نہیں جانتا، میرے بیٹے ملک سے باہر ہیں، جب آئیں گے تو اپنا کیس خود لڑ لیں گے۔

ایسی بہکی بہکی باتیں اور بے سروپا قصے کہانیوں سے تو کوئی احمق بھی یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ شہباز شریف کے پاس اپنے اوپر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کی صفائی میں کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ لہذا ان کی ضمانت جس میں عدالت جون سے لے کر اب تک توسیع کرتی چلی آ رہی تھی، خارج کر دی گئی اور انہیں کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن مریم نواز اور نون لیگ کے رہنما اس کو سیاسی گرفتاری ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔

حالانکہ یہ سراسر ذاتی بد عنوانیوں کا کیس ہے، جس کو اس کی اصل بنیاد کے مطابق اگر نہ لڑا گیا تو اس کے نتائج بھی بڑے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن پھر سوائے پچھتانے کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شہباز شریف نے چونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تحریک کی قیادت کرنا تھی، اس لئے انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے, جو کہ ایک سراسر غلط تجزیہ ہے۔

شہباز شریف تو اس تحریک کی قیادت کرنے سے ویسے ہی جان چھڑا رہے تھے، اور بلاول بھٹو کو یہ کہہ کر آگے کرنا چاہتے تھے کہ وہ جوان خون ہے۔ جبکہ اصل میں شہباز شریف اداروں سے اپنے لئے متوقع ریلیف کے پیش نظر پس منظر میں رہنا چاہتے تھے۔ حکومتی ترجمانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تحریک میں فرنٹ فٹ پر کھیلنے سے بچنے کے لیے شہباز شریف نے اپنی درخواست ضمانت خود ہی واپس لے لی تھی، اور وہ اپنی گرفتاری کے خود ذمہ دار ہیں، اب آتے ہیں نواز شریف کی اے پی سی میں کی جانے والی ڈانگ مارکہ تقریر کی طرف، جس میں انہوں نے پاکستان کے آئینی اداروں کو جس طرح تضحیک کا نشانہ بنایا، وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے، خاص طور پر پاکستانی فوج کو جس طرح نشانے پر رکھا گیا، وہ انڈیا کا ایجنڈا پورا کرنے کے مترادف ہے اور اس پر ہندوستان میں کئی روز تک شادیانے بھی بجائے جاتے رہے، میاں صاحب نے بلوچستان حکومت گرانے کی بات کی اور فوج پر اس کا الزام لگا دیا، جبکہ آصف علی زرداری اس کو ماضی میں اپنا کارنامہ قرار دے چکے ہیں۔

حمودالرحمن کمیشن رپورٹ شائع کرنے کا مطالبہ بڑے زور و شور سے کیا گیا، تو یاد آیا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی میاں صاحب اس رپورٹ کو شائع کرنے کا مطالبہ کیا کرتے تھے، اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر نہ صرف اس رپورٹ کو شائع کریں گے بلکہ کارگل پر کمیشن بھی قائم کریں گے، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا، جب اقتدار میں آئے تو ان کا یہ بیان ان کی قومی اسمبلی کی تقریر کی طرح سیاسی ہی ثابت ہوا، پھر میاں صاحب نے یوسف رضا گیلانی کا مربعی بنتے ہوئے ان کی حکومت کے خاتمہ پر افسوس کا اظہار کیا، اور اس کا قصور وار بھی پاک فوج کی قیادت کو ٹھہرایا، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے خاتمہ میں جہاں ان کی سپریم کورٹ کی حکم عدولی اور زرداری صاحب سے بے پناہ محبت شامل تھی، وہیں میاں صاحب خود بھی یوسف رضا گیلانی کو میمو گیٹ سکینڈل میں سیکورٹی رسک ثابت کرنے کے لیے کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں بنفس نفیس تشریف لے گئے تھے، پھر میاں صاحب نے فرمایا کہ عوام کی طاقت سے آئی حکومتوں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں، حضور میاں صاحب ، آپ کی یاداشت غالبا پلیٹ لیٹس کو بار بار مینول طریقے سے کم زیادہ کرنے سے متاثر ہو گئی ہے، یاد فرمائیں، کہ بے نظیر اور یوسف رضا گیلانی کی حکومتوں کے ہاتھ پاؤں آپ نے خود باندھے تھے، بے نظیر اور نصرت بھٹو کی امریکی صدر کے ساتھ قابل اعتراض تصاویر اپنے مشیر حسین حقانی کی پلاننگ پر آپ نے ہی جہازوں سے گرائی تھیں، غلام مصطفی جتوئی کی حکومت کے خلاف آپ سراپا احتجاج ہوا کرتے تھے، محمد خان جونیجو کی حکومت جب آپ کے جد امجد جنرل محمد ضیاء الحق نے برطرف کی، تو آپ نے بطور وزیر اعلی پنجاب اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا اور فوجی آمریت میں بدستور پنجاب کا حکمران رہنا قبول کرلیا تھا، آپ کیسے جمہوریت پسند ہیں کہ محمد خان جونیجو جیسے عوامی منتخب وزیراعظم کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق جیسے ڈکٹیٹر کا ساتھ دے رہے تھے، بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے کے لیے ارکان اسمبلی کی چھانگا مانگا میں خرید و فروخت کا سنہری کارنامہ بھی آپ ہی کے ذہن رسا کی پیداوار تھی۔

حضور آپ کو آج جمہوریت کے خلاف کی گئی سازشیں بہت پریشان کر رہی ہیں، ذرا غور فرمائیں، جمہوریت کے خلاف گزشتہ چالیس سال کے دوران ہونے والی ان سازشوں کے مرکزی کرداروں میں آپ کو اپنا ہی چہرہ نمایاں نظر آئے گا۔ جہاں تک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حکومت مخالف تحریک چلانے کا تعلق ہے، تو عوام اب بہت باشعور ہو چکے ہیں، اس اے پی سی میں بیٹھے چہروں پر نظر ڈالی جائے، تو دو چار کو چھوڑ کر سب کے سب کئی کئی بار حکمرانی کے مزے لوٹ چکے ہیں، سب ہی پر کرپشن کے الزامات ہیں، ماضی قریب میں یہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں، ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنے والے، پشاور، لاہور، لاڑکانہ کی سڑکوں پر ایک دوسرے کو گھسیٹنے والے، اربوں کی منی لانڈرنگ میں ملوث، آج ایک دوسرے سے یوں مل رہے ہیں، جیسے ان کا جنم ایک ہی ماں سے ہوا ہو۔

یہ ان سب کے ذاتی مفادات ہیں، جن کی بدولت آج یہ ایک دوسرے کے صدقے واری جا رہے ہیں۔ عوام اب ان تمام چہروں کو اچھی طرح پہچان چکی ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کا یہ کہنا کہ گرفتاریوں سے تحریک کا زور دوچند ہو جایا کرتا ہے، سراسر غلط بیانی پر مبنی ہے۔ گرفتاری سے وہ تحریکیں زور پکڑتی ہیں، جن کی کوئی اخلاقی حیثیت ہو، جن میں ذاتی مفاد شامل نہ ہو، تحریک نظام مصطفی انیس سو سہتتر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف چلنے والی تحریک تھی، قومی اتحاد کے کسی لیڈر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا، لہذا جب گرفتاریاں ہوئی تو تحریک نے زور پکڑا، اور وہ کامیابی سے یوں ہمکنار ہوئی کہ بھٹو صاحب کو اقتدار سے برطرف کردیا گیا۔

لیکن آج معاملہ بالکل ہی مختلف ہے، جن لیڈروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے یا جن کی گرفتاری کا امکان ہے، مولانا فضل الرحمن سمیت، ان سب پر کرپشن کے بھاری الزامات ہیں، اور حد یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور کئی دوسرے لیڈر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں، جو کہ ریاست کے اندر ریاست بنانے والی بات ہے، کوئی بھی شخص قانون آئین سے بالاتر نہیں ہے، مولانا فضل الرحمان کے بھائی، جن پر خود بدعنوانیوں کے الزامات ہیں، کا یہ کہنا کہ مولانا کو نیب طلب کر کے دیکھے، ہم طوفان کھڑا کر دیں گے،ان لوگوں کے جھوٹے اور کرپٹ ہونے کی دلیل ہے، جس کو عوام بری طرح مسترد کرتے ہیں۔

لہذا اس بات کا ہرگز کوئی امکان نہیں کہ یہ کرپشن میں لتھڑے ہوئے۔ بار بار اقتدار اور اختیارات کے جھولے جھولنے والے ذاتی مفادات کے مارے لوگ، عوام میں کوئی پذیرائی حاصل کر سکیں گے۔ اور حکومت کے خلاف کوئی موثر تحریک چلا سکیں گے۔ ہاں البتہ جلسہ جلسہ اور ریلی ریلی یہ ضرور کھیلتے رہیں گے، جس کی پہلے بھی کوئی ممانعت نہیں ہے، اور انہوں نے اپنا پہلا جلسہ گیارہ اکتوبر کو کوئٹہ میں منعقد کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

وہ اس لئے کہ کوئٹہ میں مولانا فضل الرحمن کے مدرسوں کے معصوم بچے جلسے کی رونق بڑھائیں گے اور یہ لوگ پورے ملک میں یہ تاثر دینے کی کوشش کریں گے کہ عوام میں اس تحریک کو بہت پذیرائی مل گئی ہے۔ حالانکہ عوام سے اس تحریک کا کوئی دور دور کا تعلق واسطہ آج ہے نہ آئندہ ہوگا۔ عوام کا مسئلہ تو صرف اور صرف مہنگائی، بے روزگاری, ضروریات زندگی کی آسان فراہمی، امن و امان کا قیام، تعلیم اور صحت ہے۔

جس میں بدقسمتی سے عمران خان کی حکومت ابھی تک ناکام چلی آ رہی ہے۔ لیکن قرائن و آثار گواہی دے رہے ہیں کہ عمران خان تیزی سے ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں آ رہا ہے۔ جیسے ہی عوام کو مہنگائی،بے روزگاری سے ریلیف ملے گا۔ عوام دوبارہ عمران خان کو بھرپور سپورٹ دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ کیونکہ عوام اب اپنے ذاتی مفادات کے لئے اکٹھے ہونے والے ان لوگوں کے چہروں کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں،جو صرف اپنے کیسز ختم کروا کر بیرون ملک فرار ہونا چاہتے ہیں یا الیکشن ہارنے کے باوجود حکومت میں اپنا معقول حصہ چاہتے ہیں۔

بحالی جمہوریت کی تحریک کی آڑ میں ان کے ذاتی مفادات کے حصول کے منصوبے کا عوامی سطح پر پوری طرح ادراک ہو چکا ہے۔ لہذا عوام اب کسی بھی صورت میں ان مفاد پرستوں کے جھانسے میں ہرگز نہیں آئیں گے، جن کے متعلق شاعر نے کہا تھا کہ اپنے اپنے مفادات نے ہم کو یکجا کیا۔ ورنہ تو میرا نہ تھا اور میں تیرا نہ تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :