
ملت کا پاسبان ہے محمدعلی جناح
جمعہ 25 دسمبر 2020

میاں محمد اشرف کمالوی
ہماری دونوں ہتھیلیوں پر، غلام لمحے سجا دیے تھے
وہ جس نے صدیوں کا قرض اپنے، نحیف کندھوں پر رکھ لیا تھا
وہ جس نے تنہا چٹان بن کر، عدو کے چھکے چھڑا دیے تھے
(جاری ہے)
ان کے مقابلے میں ایک نحیف سی شخصیت تھی، جس کے پاس نہ دولت کے خزانے تھے اور نہ خفیہ تنظیمیں تھیں، لیکن اس کے پاس ایک آہنی عزم اور عظمت کردار کی بے پناہ طاقت تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر کو جناح پونجا کے گھر میں پیدا ہوئے جو رسوم ورواج کے پابند تھے ان میں مقابلے کا بھی گہرا رجحان پایا جاتا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی پیدائش کے بعد جن خصوصیات کو ظاہر کیا تھا، ان میں جدوجہد کو سب سے زیادہ نمایاں حیثیت حاصل ہے، وہ کام کام اور صرف کام پر یقین رکھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا کہ ناکامی کا لفظ میری لغت میں موجود نہیں کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ اگر کسی مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے تو رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ محنت پر ایمان رکھتے تھے،اسی لیے انہوں نے کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کیا ان کے خاندان کے بارے میں ممبئی کی دستاویزات میں لکھا گیا ہے کہ وہ مذہب کا بڑا احترام کرتے ہیں، پاکیزگی کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے، سنجیدہ رہتے ہیں، ہر وقت نئی منزل سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں، یہ ٹھنڈے دماغ کے باحوصلہ لوگ ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح اپنی زندگی کے آغاز میں گوپال کرشنا گوکھلے سے بہت متاثر تھے، اگرچہ وہ انیس سو پندرہ میں وفات پا گئے تھے مگر ان سے قائد اعظم نے بہت کچھ سیکھا تھا کہ ایک تنہا آدمی کیا کچھ کر سکتا ہے، گوکھلے سے انہوں نے یہ سیکھا تھا کہ ایک تنہا آدمی کتنی قوت کے ساتھ اپنے ملک و قوم کے لئے کام کر سکتا ہے اور کس طرح لاکھوں افراد اس سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں،وہ گوکھلے کے استدلال، جدیدیت اور قائدانہ صلاحیتوں سے بہت متاثر تھے۔ اسی جذبے کے باعث انہوں نے ماتحتی کرنے کو مسترد کر دیا تھا،اور نئی قائدانہ ملازمت کی تلاش میں ممبئی چلے گئے تھے۔ جہاں انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل آف بمبئی میکفرسن کے چیمبر میں ملازمت کر لی تھی، جس کے بعد وہ انیس سو میں پریذیڈنسی مجسٹریٹ بن گئے۔انہوں نے یہ عہدہ اتنی کامیابی سے چلایا کہ سر چارلس نے یہ درخواست کی کہ وہ یہ ملازمت مستقل طور پر قبول کرلیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پندرہ سو ماہانہ کی یہ پیشکش مستقل طور پر قبول نہ کی بلکہ یہ کہا کہ وہ اتنے روپے روزانہ کمانا چاہتے ہیں۔ جس کے صرف دو سال بعد وہ دو ہزار روپے کما رہے تھے جو 26 سالہ نوجوان کے لیے انتہائی معقول آمدنی تھی۔ انہوں نے پندرہ سو کی ملازمت کو ٹھکرا کر یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ملازمت،ماتحتی اور کلرکی کی بجائے اپنا مستقبل خود بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں اپنی قوت بازو پر پورا یقین تھا۔ وہ سیاست میں پہلی بار کھل کر 1906ء میں آئے۔ جب کانگریس کے صدر دادا بھائی نوروجی کے پرائیویٹ سیکرٹری بنے۔ کانگریس میں شمولیت کا سبب بھی یہی بات تھی کہ دادا بھائی نوروجی آئینی جدوجہد کے ذریعے آزادی کی کوشش کر رہے تھے۔ جب کہ اسی سال تیس ستمبر 1906ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ 1909ء میں قائداعظم ممبئی پریزیڈنسی کے مسلم حلقے سے آئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے،اس وقت آپ کی عمر محض 33 برس تھی۔ 1909ء میں منٹو مارلے اصلاحات نافذ ہوئیں تو بھی انگریزوں نے ہندوستان میں جمہوریت نافذ نہ کی،جس سے پتہ چلا کہ انہیں بااختیار پارلیمنٹ کی نہیں، درباری طرز کے ارکان کی ضرورت ہے۔ جس پر قائداعظم کانگرس میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی بات کھل کر کرتے رہے۔ انہوں نے کہا اگرچہ میں ذاتی طور پر جداگانہ طرز انتخاب کے حق میں نہیں ہوں مگر میں یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی ہمہ گیر اکثریت کی یہ ایماندارانہ اور مقدس رائے ہے کہ جداگانہ انتخاب ہی وہ واحد طریقہ ہے جس میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ 25 جنوری انیس سو دس کو آپ امپریل لیجسلیٹو کونسل کے اجلاس میں شریک ہوئے اور اپنی موجودگی کا سب کو احساس دلایا۔ جیسا کہ بال جبریل نے اقبال نے کہا، نہیں اس کھلی فضا میں، کوئی گوشہ فراغت۔ یہ جہاں عجب ہے، نہ قفس نہ آشیانہا17 مارچ 1911ء کو آپ نے مسلم اوقاف کا بل پیش کر دیا اور اس بل کی منظوری کے لیے دلائل دیے اور بل کے پاس ہونے کے لیے تعاون کی بات چیت کی۔ چونکہ یہ آپ کے دل کی سچی آواز تھی، اس بل کی عملی تکمیل 21 مارچ 1913ء میں ہوئی۔ مسلم اوقاف بل کا قانون بن جانا کوئی آسان کام یابی نہ تھی، یہ تاریخی ریکارڈ ہے کہ کسی غیر سرکاری رکن کا پیش کردہ بل یوں قانون بن جائے۔ اسی ایک عمل سے قائد کی قابلیت سوچ اور قانونی مہارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے انیس سو تیرہ میں آپ لندن میں تھے کہ وہیں آپ مسلم لیگ کے رکن بنے۔آپ بیک وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے ممبر تھے۔اس وقت کوئی پابندی نہ تھی۔ دونوں تنظیموں کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور یہ احساس ابھرنا شروع ہو گیا کہ جو سرسید احمد خان کہتے تھے وہ ٹھیک ہے۔ کانگریس صرف ہندوؤں ہی کے مفاد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مسلمانوں کو وہ دکھاوے کے لئے ساتھ لیے ہوئے ہے۔ آپ مسلم لیگ کی طرف مائل ہونا شروع ہوگئے۔ انیس سو سولہ میں آپ کو لکھنؤ کے مقام پر نویں سالانہ اجلاس کی صدارت پیش کی گئی۔ یہ آپ کی مقبولیت اور مسلم احساس کی بنا پر تھا۔ جس میں آپ کو اعزاز صدارت دیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد آپ نے مسلم لیگ میں مزید انقلابی کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ پھر آپ نے انیس سو بیس میں مسلم لیگ کے خصوصی اجلاس کلکتہ کی صدارت کی۔ چنانچہ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر آپ نے 1920ء میں ناگ پور کے مقام پر کانگریس سے استعفی دے دیا۔ اب آپ مکمل طور پر مسلمانوں کے مفاد کی خاطر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آگئے۔ 25 مئی 1924ء کو لاہور میں 15 ویں سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے لیڈر بن گئے۔ 24 جنوری 1925ء آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور 26 نومبر 1926ء کو مرکزی اسمبلی کے دوبارہ رکن بنے۔ 1927ء میں دہلی میں مسلم رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی۔ متاع بے بہا ہے،درد و سوز آرزو مندی۔ 1929ء میں آپ نے اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے۔ 1930 میں پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہوئے۔ 1936 میں آپ نے مسلم لیگ کے ممبئی اجلاس میں شرکت کی۔ جس میں آپ کو مسلم لیگ کی صدارت کے لئے نامزد کیا گیا جو آپ نے مسلمانوں کے وسیع تر مفاد کے لئے قبول کر لی۔ آپ نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کے لیے ملک گیر دورے کیے اور پورے ملک میں مسلم لیگ کی تنظیم کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کردیا آزادی کا یہ قافلہ سخت جان چلتا چلاتا ہوا 1940 ء میں لاہور کے مشہور منٹو پارک میں آ کر رکا ، تو میاں بشیر احمد کی مشہورزمانہ نظم کلام شاعر بزبان شاعرپڑھی جا رہی تھی۔ملت ہے جسم جان ہے، محمد علی جناح
لگتا ہے جا کے ٹھیک ،نشانے پہ جس کا تیر
ایسی کڑی کمان ہے، محمد علی جناح
ملت ہوئی ہے زندہ ،پھر اُس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے، محمد علی جناح
لاہور اپنے بخت پہ نازاں ہے ، کیوں نہ ہو
آج اپنا مہمان ہے، محمد علی جناح
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میاں محمد اشرف کمالوی کے کالمز
-
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
منگل 14 دسمبر 2021
-
ملت کا پاسبان ہے محمدعلی جناح
جمعہ 25 دسمبر 2020
-
قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان
جمعہ 16 اکتوبر 2020
-
اپنے اپنے مفادات نے ہم کو یکجا کیا
جمعرات 1 اکتوبر 2020
-
ڈٹ کے کھڑے رہنا عمران
پیر 6 جولائی 2020
-
جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا
پیر 15 جون 2020
-
پیش کر غافل،عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اتوار 7 جون 2020
-
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
پیر 1 جون 2020
میاں محمد اشرف کمالوی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.