پیش کر غافل،عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

اتوار 7 جون 2020

Mian Muhammad Ashraf Kamalvi

میاں محمد اشرف کمالوی

 کورونا جیسی خطرناک خدائی آزمائش کے باعث لاک ڈاؤن کے باوجود مجھ سے عید ملنے آیا ہوا نوجوان سخت برہم تھا۔ میں نے اسکے لئے ٹھنڈا مشروب منگوایا لیکن اس نے اسکی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اسکا پہلا سوال تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو پارلیمنٹ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔میں نے کہا ۔ برخوردار۔ پہنچ نہیں جاتے بلکہ انہیں ہم عوام بذریعہ ووٹ منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ووٹ کو عزّت دیتے ہوئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دیکر وطن عزیز کو ترقّی و خوشحالی کی شاہراہوں پر گامزن کر سکیں۔

نوجوان نے میرے وسیع تر مفاد اور قربانی کے الفاظ ذرا زور دیکر اس طرح دہرائے جیسے ہمارے ملک کے کالے بھورے انگریز منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس پر میں نے اسکی توجّہ ٹھنڈے مشروب کی طرف دلائی تو اس نے بادل نخواستہ دو تین گھونٹ حلق کے نیچے اتارلئے اور اپنا اگلا سوال داغ دیا۔ کمالوی صاحب، ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا یہ لوگ غریب غرباء کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

میں نے کہا، ہرگز نہیں۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی کرنے والے یہ لوگ بڑے بڑے جاگیر دار، بڑے بڑے درباروں کے گدی نشین اور بڑی بڑی ملوں کے مالک بہت بڑے سرمایہ دار ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ساری زندگی ڈکا یعنی تنکا بھی نہ توڑیں تو بھی انکی آئندہ کئی نسلیں نہائت آرام سے عیاشی کی زندگی گزار سکتی ہیں۔ گزشتہ پنتیس سالوں سے باریاں لینے والے حکمرانوں اور انکے حواریوں نے تو لوٹ مار کرکے اندرون و بیرون ملک اتنی دولت جمع کر رکھی ہے کہ انکی نئی نسل کو پتہ بھی نہیں کہ الحمدواللّہ انکی اندرون و بیرون ملک کہاں کہاں بڑی بڑی جائیدادیں اور مال و دولت کے انبار موجود ہیں۔

لیکن قوم کے ساتھ لوٹ مارکی یہ واردات اسقدر صفائی ستھرائی کیساتھ کی گئی ہے کہ نیب اور عدالتیں بے بس نظر آتی ہیں۔ پوری قوم حیران و پریشان ہے کہ آخر کیوں؟ ان سابقہ حکمرانوں کے ہاتھ بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف ہے،گویا یہ قتل کرے ہیں کہ کرامات کرے ہیں۔ نوجوان کا اگلا سوال تھا۔ آپکے خیال میں سینٹ، قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے پر کتنا خرچہ ہو جاتا ہوگا۔

میں نے جواب دیا۔ برخوردار۔ اس حساب کتاب میں نہ پڑو۔ ویسے بھی مجھے اسکا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے، کیونکہ میں نے تو آج تک سٹوڈنٹس یونین کا الیکشن لڑنے لڑانے کے علاوہ کبھی کوئی الیکشن نہیں لڑا۔ ہاں شنید یہ ہے کہ یہ گیم جو ہماری نوجوانی کے دور میں لاکھوں کی ہوتی تھی، اب کروڑوں تک جا پہنچی ہے، کچھ خاص کیسوں میں تویہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ نصف ارب کا قصّہ ہے دو چار کروڑ کی بات نہیں۔

میری اس بات پر نوجوان کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ کے آثار نمودار ہوئے، گویا اسکا تیر عین نشانے پر جا کر لگ چکا ہے۔ ساتھ ہی اگلا سوال میرا منتظر تھا۔ دوران الیکشن آپکو ان لوگوں کا کبھی کوئی انتخابی جلسہ سننے کا اتفاق ہوا ہے؟ میں نے کہا اتفاق نہیں بلکہ میں تو حتی المقدور پوری کوشش کرتا ہوں کہ ہر بڑے انتخابی جلسے کو اپنی موجودگی سے چار چاند لگا دوں، سٹیج پر بیٹھنے کی دعوت کے باوجوداچھے مقررین کو انکے عین سامنے بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر سننا بچپن سے ہی میرا جنون کی حد تک شوق رہا ہے، اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، یہ اسی کا ثمر ہے کہ سکول،کالج سے لیکر پنجاب یونیورسٹی تک جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی میں تقریری مقابلوں میں اترا ہوں، کامیابی و کامرانی نے ہمیشہ میرے قدم چومے ہیں،اسی لئے ابھی تک بھی میرے پرانے اساتذہ اور دوستوں میں سے جب بھی کوئی ملتا ہے تو بزبان شاعر یہ ضرور کہتا ہے کہ ہوا میں شور ابھی تک تری اڑان کا ہے۔

میں نے محسوس کیا کہ میرے اس جامع جواب نے نوجوان کو اپنے ٹارگٹ کے قریب تر کر دیا ہے۔ اسکا اگلا سوال تھا،کمالوی صاحب، پھر تو آپکو بخوبی علم ہوگا کہ غریبوں، مزدوروں،کسانوں اور پسے ہوئے طبقے کو یہ لوگ کیسے کیسے سبز باغ دکھاتے ہیں،کس طرح عوام کوخوشحالی اور آسودگی فراہم کرنے کیلئے آسمان سے تارے توڑ لانے کا دعوی کرتے ہیں، کسطرح انکی ہر غمی و خوشی کے موقع پر اپنا تن،من،دھن قربان کر دینے کا اعلان کرتے ہیں،کسطرح انہیں یقین دلاتے ہیں کہ کسی بھی ضرورت اور مصیبت کے وقت وہ اپنے حلقے کے عوام کیلئے چوبیس گھنٹے دستیاب ہونگے کیونکہ اپنے تمام تر وسائل کو غریب عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کرکے وہ دلی سکون محسوس کرتے ہیں۔

میں نے کہا، جی ہاں ظاہر تو بالکل ایسا ہی کیا جاتاہے۔نوجوان کا اگلا سوال تھا کہ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں کا ایک دن کا کتنا خرچہ اس ملک کے ان غریب عوام کی جیبیں کاٹ کر نکالا جاتا ہے جنہیں پینے کا صاف پانی اور واش رومز تک بھی میسّرنہیں۔میرا جواب تھا، یہی کوئی پچاس سا ٹھ کروڑ کے لگ بھگ۔ اس پر پہلے سے برہم نوجوان باقاعدہ مشتعل ہو گیا، اس نے کہنا شروع کیا۔

کمالوی صاحب،کیا ان اجلاسوں پر یہ بھاری اخراجات اس لئے کئے جاتے ہیں کہ یہاں بیٹھے سرمایہ دار اور جاگیردار ملک میں موجود اور ملک سے فرارکرپشن اور قومی خزانہ لوٹنے والی اپنی لیڈر شپ کی صفائیاں پیش کرتے رہیں، مذہبی لبادہ اوڑھے کچھ ارکان اپنے ایک رہنماجسکو اسکے اپنے حلقے کے عوام بار بار مسترد کر چکے ہیں،کو دوبارہ قومی اسمبلی میں پہنچانے،کشمیر کمیٹی کی چئرمین شپ دلانے اور اسلام آباد کی منسٹر کالونی کے بنگلہ نمبر بائیس میں داخل کروانے کو اپنا مذہبی فریضہ قرار دے ڈالیں، حالانکہ کشمیر کمیٹی کی آڑ میں قوم کا کروڑوں روپیہ ڈکارنے کے باوجود ان مولوی صاحب کی کارکردگی انتہائی شرمناک رہی ہے۔

اب زندگی میں پہلی بار اقتدار سے محروم رہ جانے کی وجہ سے یہ حضرت ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں،آہ، پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، ان دھرنوں سے عزّت سادات بھی گئی۔اس پر نوجوان نے اپنی پٹاری سے آخری سوال نہیں بلکہ اپنا باقاعدہ فیصلہ نکال کر سنانا شروع کر دیا۔کمالوی صاحب۔جب یہ لوگ بقول آپکے،اپنے الیکشن پر کروڑوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں،انکا تعلق معاشرے کے انتہائی خوشحال،بے پناہ وسائل رکھنے والے طبقے، سرمایہ داروں،جاگیرداروں،گدی نشینوں سے ہے،یہ اپنے انتخابی جلسوں میں عوام کیلئے اپنا تن،من،دھن قربان کر دینے کا اعلان کرتے ہیں تو پھر مجھے بتایا جائے کہ اسمبلیوں میں پہنچتے ہی انکا مقصد حیات اپنی تنخواہوں اور مراعات کو بڑھانے،اپنے ٹی اے۔

ڈی اے میں اضافہ کروانے، پارلیمنٹ لاجز میں بنگلے حاصل کرنے اور اپنے صوابدیدی فنڈزایشو کروانا ہی کیوں ہوتا ہے۔نوجوان نے جذباتی انداز میں اپنے خیالات کو زبان دیتے ہوئے مزید کہا کہ کمالوی صاحب،اپنے کالم کے ذریعے مجھ جیسے کروڑوں نوجوانوں کی آواز وزیر اعظم عمران خان تک پہنچائیے کہ وہ نہ صرف آئندہ خود کسی بھی قسم کی تنخواہ یا مراعات سرکاری خزانے سے نہ لینے کا اعلان کریں بلکہ تمام ممبران پارلیمنٹ، ارکان صوبائی اسمبلی،وزیروں،مشیروں اور معاونین خصوصی کی ہر قسم کی مراعات اور تنخواہیں بند کرکے یہ بچّت وزیراعظم کے کرونا فنڈ میں جمع کی جائے تاکہ ملک وقوم کا بھلا ہو سکے کیونکہ یہ کوئی بھوکے ننگے لوگ نہیں ہیں بلکہ انکا تعلّق پاکستان کے انتہائی سرمایہ دار، مراعات یافتہ اور بے تحاشہ دولت رکھنے والے طبقہ سے ہے۔

آج وطن عزیز معاشی طور پر جس بر ی صورت حال سے دو چار، گرے لسٹ کے گرداب میں ہچکولے کھا رہا ہے،غریب اور سفیدپوش طبقہ جسطرح مہنگائی،بیروزگاری اور یوٹیلٹی بلوں کے سامنے بے بس و مجبور ہو چکا ہے، پڑھے لکھے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے نوکریوں کیلئے جسطرح دھکے کھا رہے ہیں،اسکا تقاضہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ، ارکان صوبائی اسمبلی، وزیروں،مشیروں اور معاونین خصوصی کو اپنے ان دعوؤں کو سچّا ثابت کرنیکا موقع فراہم کیا جائے جسکا وعدہ وہ اپنے انتخابی جلسوں میں عوام سے کرتے آئے ہیں۔

ملکی معیشت کو مضبوط ومستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے ،ملک کے غریب و مزدور عوام کو کورونا جیسی موذی وباء سے نجات دلانے ، کرونا کے خلاف جنگ لڑنے والے صف اؤل کے مجاہدین ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکل سٹاف، ایمبولینسزکے عملے کو حفاظتی سامان فراہم کرنے اورلاک ڈاؤن کے باعث گھروں میں بند ضرورتمندوں کو اشیائے ضروریہ انکی دہلیز تک پہنچانے کیلئے دیگر صاحب ثروت پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ ان سے بھی قربانی لی جائے تاکہ عوام اور ملک و قوم کی خدمت کرنیکا انکا دیرینہ شوق پورا ہو سکے اور وطن عزیز کورونا جیسے کڑے امتحان میں سرخرو ہو کر دوبارہ ترقّی و خوشحالی کی شاہراہوں پر گامزن ہو سکے ۔

گر یہ برا نہ مانیں۔آج پوری پاکستانی قوم پکار پکار کر اپنے ان راہنماؤں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ پیش کر غافل،عمل کوئی اگر دفتر میں ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :