کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

منگل 14 دسمبر 2021

Mian Muhammad Ashraf Kamalvi

میاں محمد اشرف کمالوی

بیان کچھ یوں کیا جاتا ہے کہ ایک درد دل رکھنے والے شخص کو کسی فراڈئیے نے اپنی دکھ بھری کہانی سنا اچھی خاصی رقم کچھ ماہ کے ادھار پر ہتھیا لی، مقررہ مدت گزرے جب کافی وقت بیت گیا، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ادھار دینے والا شخص جب بھی اپنی رقم کا تقاضا کرتا، فراڈیا کوئی نہ کوئی عذر تراش کر اسے ٹال دیتا، ایک دن تنگ آ کر وہ شریف آدمی چند معززین علاقہ کو ساتھ لے کر اس فراڈیے کے گھر جا پہنچا اور اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کیا، فراڈیے نے بڑے اعتماد اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، آپ کی رقم کا بندوبست ہو گیا ہے، بس کچھ دن مزید انتظار کرنا پڑے گا، معززین نے استفسار کیا کہ کتنے دن، اس پر وہ فراڈیا گویا ہوا کہ دیکھو بھائیو، میں نے اپنے اس گھر کی باہر والی دیوار کے ساتھ کچھ ایسے درختوں کے بیج بو دیے ہیں جنکی نوکیلی گھنی شاخیں آدھی سڑک پر پھیل جائیں گی، آپ جانتے ہیں کہ کپاس کی چنائی کے موسم میں کپاس سے لدی پھندی ٹرالیاں یہاں سے گزرتی ہیں، کپاس ان درختوں کی شاخوں میں پھنسے گی، جسے میں روزانہ کی بنیاد پر اتار کر فروخت کرتا رہوں گا، یوں ادھار لی گئی رقم بڑی آسانی سے ادا ہو جائے گا، بس جیسے ہی یہ بیج درختوں کا روپ دھار کر اپنی نوکیلی شاخیں سڑک پر پھیلائیں گے، رقم کا بندوبست ہونا شروع ہو جائے گا، فراڈیے کی یہ بات سن کر رقم لینے والے کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی، جس پر فراڈیا یوں گویا ہوا کہ ہاں جی ہاں، اب تو آپ کو ہنسی آنی ہی آنی ہے، کیونکہ آپ کی رقمیں جو تر گئیں ہیں۔

(جاری ہے)

معزز قارئین۔ بتایا تو یہ گیا تھا کہ پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی نے لانگ مارچ اور استعفے دینے پر اتفاق کرتے ہوئے سفارشات تیار کر لی ہیں اور پانچ دسمبر کو ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں لانگ مارچ اور استعفوں کی تاریخ اور وقت کا اعلان کر دیا جائے گا، لیکن پانچ دسمبر کو سربراہی اجلاس کے بعد جن فیصلوں کا مولانا فضل الرحمن نے نہائت شکستہ دلی و مایوسی کے عالم میں اعلان کیا، اسے سن کر ہر ذی شعور پاکستان کی زبان سے یہی نکلا کہ وہی ڈھاک کے تین پات، کھودا پہاڑ نکلا چوہا، وہ بھی مرا ہوا۔

گویا
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نکلا
کے مصداق، 5 دسمبر کے سربراہی اجلاس کی ہوا تو کچھ یوں باندھی گئی تھی کہ گویا اب اس آر پار کے مرحلے کا آغاز ہوا چاہتا ہے جس کا خواب مریم نواز دن رات دیکھتی رہی ہیں مگر ہر بار یہ خواب چکنا چور ہو جاتا رہا ہے، مگر سربراہی اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں لانگ مارچ کو مہنگائی مارچ میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس کے لیے یوم پاکستان یعنی 23 مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔

یعنی تقریبا ساڑھے تین ماہ کے بعد غریب اور پسے ہوئے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کا انتہائی مضحکہ خیز اعلان کیا گیا ہے، جس پر عوام ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں، لیکن پی ڈی ایم کے قائدین ان کو بتا رہے ہیں کہ ہنسی تو آپ کو اب آنی ہی آنی ہے، کیونکہ ہم نے ساڑھے تین ماہ بعد آپ کو اس ظالمانہ مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے مہنگائی مارچ کا اعلان جو کر دیا ہے۔

جہاں تک استعفوں کا معاملہ ہے، اس کو بالکل ہی مؤخر کر دیا گیا ہے, اگر استعفوں کا فیصلہ اسی سربراہی اجلاس میں ہونا تھا جو کہ نہیں ہو سکا تو پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کرکے اسے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ مریم نواز کا دعوی تھا کہ ہمارے تمام ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے پارٹی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دیے ہیں، جو کہ جلد ہی حکومت کے منہ پر دے مارے جائیں گے لیکن پھر یوں ہوا کہ جو دو استعفے ٹیسٹ کیس کے طور پر سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا گئے، جن میں ایک استعفا مریم بی بی کے مظلوم خاوند کے بھائی کا بھی تھا، ان دونوں ممبران نے اس کی تصدیق کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے ان استعفوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔

بعدازاں پوزیشن آئے روز پنترے بدلتی رہی، کبھی لانگ مارچ کی بدلتی تاریخیں، کبھی جلسے، کبھی جلوس، کبھی دھرنے، کبھی ریلیاں، لیکن ہر بار ان کے حصے میں سوائے ذلت و رسوائی کے اور کبھی کچھ نہ آیا۔ انتخابی اصلاحات کے ترمیمی بل جن میں ای وی ایم مشینوں کا استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا بھی شامل تھا، کے خلاف بھی اپوزیشن کی طرف سے سخت ترین موقف اپنایا گیا، حکومت کے ارکان کا اپنے ساتھ رابطوں کا چھوچھہ بھی پوری شدومد کے ساتھ چھوڑا گیا، انتخابی اصلاحات و دیگر بلوں کو کسی بھی صورت میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پاس نہ ہونے دینے کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن جب گھوڑا اور میدان دونوں حاضر ہوئے تو حکومت کے ارکان کی گنتی تو پوری پائی گئی لیکن اپوزیشن کے کچھ ارکان تربتر ہو گئے، نتیجتاً حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے، آئندہ الیکشن میں ای وی ایم مشینوں کے استعمال سمیت انتخابی اصلاحات ترمیمی و دیگر بلز بڑی آسانی سے پاس کروا کر ایک بار پھر اپنی برتری اس شان کے ساتھ ثابت کر دی کہ اپوزیشن ابھی تک سکتے کی کیفیت میں اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔

صدر مملکت نے پارلیمنٹ سے منظور شدہ اس انتخابی ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد انتخابی ترمیمی بل 2021 باقاعدہ قانون کا درجہ حاصل کر گیا ہے۔ جس کی رو سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق دے دیا گیا ہے، جو کہ عمران خان کا ایک ایسا سپر سٹروک ہے جو آئندہ الیکشن میں اس کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے، اسی طرح آئندہ الیکشن میں ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جائے گا جو کہ دہائیوں تک اقتدار کے جھولے جھولنے والوں اور اپنے مخصوص حلقوں میں ہزاروں کی تعداد میں جعلی اور لاتعداد مرحومین کے ووٹوں کی بنا پر الیکشن جیتنے والوں کے لیے موت کا پیغام ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو ای وی ایم مشینوں کے استعمال کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔

پی ڈی ایم کا اپنے حالیہ سربراہی اجلاس میں استعفوں کے معاملے سے ایک بار پھر راہ فرار اختیار کرنا اور لانگ مارچ کی بجائے اب مہنگائی مارچ کا اعلان کرنا وہ بھی ساڑھے تین ماہ کے بعد، عوام سے ایک انتہائی بھونڈا مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں آرمی پریڈ بھی ہوتی ہے، جس کے لئے بہت سے راستے پہلے سے ہی بند کر دیے جاتے ہیں، ایسے اہم موقع پر ملک میں افراتفری پھیلانے کی سازش کرنا ملک کا بین الاقوامی امیج خراب کرنے کے ضمن میں آتا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب پی ڈی ایم خود ابھی تک استعفوں کا فیصلہ نہیں کر سکی تو پیپلز پارٹی کو اس بنا پر شوکاز نوٹس جاری کرنے کا کیا جواز تھا۔

اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق پی پی کا تعاون دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پی ڈی ایم کے قائدین اسمبلی کے اندر اور باہر ان کی خوشامد کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، مریم نواز نے صرف اپنے عدالتی مجرم والد کو اور اس کا لوٹ مار کا پیسہ بچانے کے لئے جس جس طرح بلاول بھٹو کو اپنے سیاسی جال میں پھانسنے کی کوششیں کی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

لیکن اس کے ان تمام تر حربوں کے باوجود لاہور کے حالیہ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے نون لیگ کو ناکوں چنے چبوانا اس کا واضح ثبوت ہے، کہ نون لیگ کی سیاست ناکام ہوچکی ہے، صرف 19 فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں، جن میں سے نون لیگ نے جتنے ووٹ حاصل کیے ہیں وہ تو ویسے بھی ان کی امیدوار کو اس کے مرحوم خاوند کی ہمدردی میں حاصل ہو جانے تھے، پی ڈی ایم کو سوچنا چاہیے کہ اس کے تمام تر حربوں کے باوجو عوام اس کو وہ رسپانس دینے کو کیوں تیار نہیں ہیں، جن کی توقع اور دعویٰ پی ڈی ایم کے قائدین اپنے ہر پروگرام اور مرحلے کے شروع میں کرتے نظر آتے ہیں۔

حالانکہ اس وقت عوام مہنگائی کے چنگل میں پھنسے جس مشکل سے سانس لے رہے ہیں، زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے جس طرح ترس رہے ہیں، بے روزگاری کا جن جس طرح ان کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑے ہوئے ہے،تعلیم و صحت کے اخراجات پورے کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہا، سفید پوش طبقہ جس طرح دگرگوں اذیت ناک حالات کی گردش میں ہے، اس کا سوچ کر ہی دل دھل جاتا ہے، بے شمار سفید پوش، تنخواہ دار، پنشن ہولڈرز ایسے ہیں، جن کو اپنی روزمرہ ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ہر روز ایک نیا کنواں کھودنا پڑتا ہے۔

یہ وہ حالات ہیں جو کسی بھی اپوزیشن کے لیے حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے آئیڈیل تصور کئے جاتے ہیں۔ لیکن عوام ہیں کہ سب کچھ اپنی جان پر برداشت کر رہے ہیں، لیکن اپوزیشن کی کال پر باہر نکلنے کو ہرگز تیار نہیں۔ آخر کیوں؟ اس کی بنیادی وجہ جو ہر ذی شعور پاکستانی جانتا ہے وہ یہی ہے کہ اپوزیشن کی کوئی اخلاقی نہیں حیثیت ہے۔ ان میں سے دو جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی تو کئی دہائیوں تک حکومت کے مزے لوٹ چکی ہیں۔

قضل الرحمان ان سب کے سہولت کار رہے ہیں۔ وہ بنگلہ نمبر بائیس اور کشمیر کمیٹی کی آڑ میں لوٹ مار میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر کا پروٹوکول بھی انجوائے کرتے رہے ہیں۔جبکہ اب وہ گذشتہ الیکشن میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے بری طرح پٹ جانے کے بعد سیاسی سسٹم سے پوری طرح آؤٹ ہو کر ماہی بے آب کی طرح تڑپتے پھڑکتے پھر رہے ہیں، چونکہ ان کے پاس کھونے کو اب کچھ بھی باقی نہیں بچا، اس لیے وہ ہر وقت سر پر بارود باندھے، خودکش جیکٹ پہنے اس پورے سسٹم کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن حکومت اب ان کو سیریس لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہے گویا،
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
س عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
 اپوزیشن اپنے مفادات کے لئے ان کے غبارے میں بوقت ضرورت ہوا بھر کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کر نے کی کوشش کرتی رہتی ہے، بعد میں اچانک ان کا غبارہ پنکچر کر دیا جاتا ہے۔

اپوزیشن کو اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے کہ اگرچہ عوام حکومت سے مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان کی تشویش ناک صورتحال اور رشوت ستانی کے مسائل کی وجہ سے تنگ آ چکے ہیں، لیکن مطمئن اس سے بھی نہیں ہے کیونکہ وہ بار بار آزمائے ہوئے مہرے ہیں۔ پی ڈی ایم کی چھوٹی جماعتوں نے بھی مہنگائی مارچ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے کہ اگلے سال 23 مارچ کو جب یہ منہگائی مارچ کیا جانا ہے، حکومت اپنی مدت کے پونے چار سال مکمل کر چکی ہوگی اور اس وقت سب پارٹیاں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہوں گی لہذا عوام کے ساتھ ساتھ مقامی سطح کی لیڈرشپ بھی ان کو گھاس نہیں ڈالے گئی ۔

مولانا ایک بار کہا تھا کہ وہ چودہ اگست کو یوم آزادی نہیں منائیں گے، اس کے بعد ان کو جس ذلت اور کھجالت کا سامنا کرنا پڑا، لگتا ہے انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھااسی لئے اب وہ یوم پاکستان پر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی ناکام کوشش کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے بڑوں کا یہ اقوال زریں تاریخ کا حصہ ہے کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے، مسلم لیگ نون نے استعفوں کے معاملے میں تو ایک بار پھر مولانا کو صاف جھنڈی کروا دی ہے، تاہم عوام کو اب لانگ مارچ کی بجائے مہنگائی مارچ کا لالی پاک دے دیا گیا ہے، وہ بھی ساڑھے تین ماہ کے بعد۔ لیکن جب اس کا وقت آئے گا، اس وقت دیکھا جائے گا۔کیوں کہ
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :