اردو پوائنٹ:اٹھارہ برس کا سفر

منگل 14 اگست 2018

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

یقین نہیں آتا کہ18برس بیت گئے-ان اٹھارہ سالوں میں اب میرے عزیزدوست کے بالوں میں بھی سفیدی جھلکنے لگی ہے غالبا2000کا سن تھا جب میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی -کچھ کرگزرنے کے جذبے سے بھرپور ایک توانا نوجوان ‘ اپنے بیڈ روم میں بیٹھ کر ایک کمپیوٹرسے قومی زبان کو دنیا میں پھلانے کے جذبے سے سرشار-یہ وہ زمانہ تھا جب نہ ہائی سپیڈ انٹرنیٹ دستیاب تھا اور نہ ہی برق رفتار کمپیوٹرمگر عزم توانا ہوں تو محدودوسائل میں بھی کامیابی قدم چوم لیتی ہے-اس نے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں ایک نئی صنف کا اضافہ کیا ”ڈیجیٹل میڈیا“بلاشبہ علی چوہدری کو پاکستان میں ”ڈیجیٹل میڈیا“ کا بانی کہا جاسکتا ہے -وہ زمانہ جب ہرکوئی ”ڈیجیٹل میڈیا“کے وجود اور اہمیت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا مگر وہ اپنی دھن کا پکا نکلا اور وقت نے ثابت کیا کہ اس کا فیصلہ بروقت اور درست سمت میں تھا آج جب دنیا بھر میں بھارت اور دیگر پاکستان دشمن عناصر اردو ویب سائٹس کے ذریعے نواجوان نسل کے ذہنوں میں لسانیت ‘فرقہ واریت‘نسل پرستی اور صوبائی تعصب کا زہر انڈیلنے کے لیے ہر حربہ آزما رہے ہیں تو حکومتی مدد ‘تعاون یا سرپرستی کے بغیرعلی چوہدری کی ”اردوپوائنٹ“ ڈیجیٹل دنیا کے محاذ پر وطن عزیزکی نظریاتی اساس کے تحفظ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں قومی زبان کے فروغ کے لیے پاکستان دشمن عناصر کے دانت کھٹے کرتی نظرآتی ہے-پاکستان میں بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ کی کسی بھی نئی صنف کو اپنا آپ منوانے اور اہمیت کا احساس دلانے کے لیے دہائیاں بیت جاتی ہیں -حکومت پاکستان اربوں روپے کے فنڈزسے اردو سائنس بورڈ اور اردو یونیورسٹی جیسے اداروں کے ذریعے وہ کام نہیں کرسکی جو اپنی مدد آپ کے تحت ”اردو پوائنٹ“نے کیا بالخصوص بیرون ممالک مقیم پاکستانی خاندانوں کی نئی نسلوں کو قومی زبان سے جوڑے رکھنے کے لیے علی چوہدری نے جو خدمات انجام دیں بلاشبہ اس کے لیے وہ اعلی سول ایوارڈ کا حقدار ہے-
بدقسمتی سے حکومتیں تو اپنی جگہ صحافتی تنظیموں اور پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے ”بڑوں“کو بھی ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت اور افادیت کا بروقت احساس نہیں ہوا مگر 20سال کے نوجوان کمپیوٹرسائنس کا طالب علم اس کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی آگاہ تھا اس کی یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کی گئی کہ ویب سائٹس کیا ہے‘اس کو کون دیکھے گا‘پاکستان میں لوگوں کو کمپیوٹرکا کیا پتہ وغیرہ وغیرہ آج انہی ناقدعین میں سے کئی اپنی ویب سائٹس بنا کر انہیں چلانے کے لیے زورآزمائی کررہے ہیں-یہ علی چوہدری کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے ”اردو پوائنٹ“کی صورت میں ایک گلوبل اردو کمیونٹی کی بنیاد رکھی میرے بیرون ممالک مقیم کئی پاکستانی دوستوں کا کہنا ہے کہ دیار غیرمیں ان کے بچے ”اردوپوائنٹ“کی وجہ سے قومی زبان اور پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں چاہے وہ خبروں کی صورت میں ہویا مضامین‘کتابیں ‘یا شاعری ہر لحاظ سے ”اردو پوائنٹ“کوایک مکمل فیملی ویب سائٹ کا اعزاز حاصل ہے -صحافت کے خار زاروں میں 23سال سے دھکے کھاتے عمر کے اس حصے میں جاپہنچے ہیں جب دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر ستانے لگتی ہے‘کئی سال تک اردو پوائنٹ کے لیے مضامین‘افسانے اور کہنانیاں لکھتا رہا اور ان کے فیڈبیک سے مجھے اردو پوائنٹ کی ”وسیع اثرات“کا اندازہ ہوتا رہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت سے لیکر مشرق وسطی تک‘مشرق ہویا مغرب ‘افریقہ کے صحرا ہوں یا ہمالیہ کی بلندیاں جہاں جہاں اردو سمجھنے ‘پڑھنے اور بولنے والا موجود ہے وہاں تک علی چوہدری کی ”ڈیجٹیل سلطنت“قائم ہے-اردوپوائنٹ پر کئی مشکل وقت آئے کبھی پاکستان دشمن عناصر نے ہیکرزکے ذریعے حملے کیئے توکبھی دہشت گردوں کی طرف سے دھمکیاں مگر علی چوہدری کے کبھی قدم ڈگمگائے نہ اس نے دھمکیوں کی پرواہ کی یہ اس کا عزم اور جہدمسلسل کا ثمرہے کہ آج اس کا ”برین چائلڈ“18ویں سن میں جالگا ہے آج وہ ایک توانا جوان کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے-امریکا کے کئی دورافتادہ علاقوں میں کئی پاکستانی اور بھارتی خاندانوں سے ملنے کے مواقع ملے مجھے اردو پڑھنے اور سمجھنے والا کوئی ایسا فرد نہیں ملا جو اردوپوائنٹ سے واقف نہ ہو -
 آج 18سال کے بعد جب کمپیوٹراور سمارٹ فونزہرکسی کی دسترس میں ہیں ڈیجٹیل میڈیا کی اہمیت اور افادیت میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ پرنٹ میڈیا تقریبا ختم ہونے کے قریب ہے(دنیا کے متعدد بڑے بڑے جرائد اپنے پرنٹ ایڈیشن بند کرکے آن لائن ایڈیشنز تک محدود ہوچکے ہیں)پاکستان میں بھی کوئی جریدہ یا نیوزچینل ایسا نہیں جس کی ویب سائٹ موجود نہیں تاہم وہ قارئین کی تمام ضروریات کو پورا نہیں کرتیں یہ انفرادیت صرف اردو پوائنٹ میں ہے کہ وہ قارئین کی تمام ضروریات کو پورا کرتی ہے -حکومتیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو تو اشتہاروں اور گرانٹس کی صورت میں سپورٹ کرتی ہیں مگر ڈیجٹیل میڈیا جو انفارمیشن کو دنیا کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک انتہائی برق رفتاری سے پہنچاتا ہے وہ اپنے وجود کو تسلیم کروانے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہا ہے-صحافتی تنظمیں بھی ٹی وی شوزمیں کام کرنے والے کامیڈینزتک کو صحافی تسلیم کرلیتی ہے مگر ڈیجٹیل میڈیا سے وابستہ افراد کو صحافی تسلیم کرنے کو تیار نہیں حالانکہ ہمسایہ ملک بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں ڈیجٹیل میڈیا سے وابستہ افراد کو صحافی تسلیم کیا جاتا ہے اوراگر یہ کہا جائے کہ پچھلی ایک دہائی کے دوران جتنی زیادہ تحقیقاتی سٹوریاں ڈیجٹیل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آئیں اور دنیا کے اہم ترین فیصلوں پر اثراندازہوئیں کسی اور میڈیم پر اس کی مثال نہیں ملتی -موجودہ حالات میں جب اردوپوائنٹ جیسی ویب سائٹ جو کہ حقیقی معنوں میں ایک بڑی قومی خدمت انجام دے رہی ہے اس کا اعتراف حکومتی سطح پر کیا جانا چاہیے-
تحریک انصاف جوکہ پاکستان کی نئی حکمران جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے اس کی انتخابی جنگ میں ڈیجٹیل میڈیم کا بڑا اہم حصہ ہے پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی ویب سائٹس کے لیے ایک موثر پالیسی بنائے اور انہیں قومی وصوبائی حکومتوں کے سرکاری اشتہاروں میں سے ان کا جائزحق دیا جائے-یہ امرانتہائی افسوسناک ہے کہ پانچ سو تک کی اشاعت والے ڈمی اخباروں کو ملنے والا سرکاری اشتہاروں کا کوٹہ دنیا بھر میں کروڑوں کی تعداد میں اردو پڑھنے والوں تک انفارمشن پہنچانے والی ویب سائٹس سے زیادہ ہوتا ہے اردو ویب سائٹس کو سپورٹ کرنے کے لیے وفاقی وصوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ریٹنگ کے لحاظ سے(اخبارات کی اے بی سی کی طرز پر)اشتہاروں کے کوٹے اور ریٹس کے لیے موثر اور قابل عمل پالیسیاں بنائیں اگر چہ آج بھی ون مین شو ویب سائٹس موجود ہیں مگر ان کی ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اردوپوائنٹ جیسی ویب سائٹ جس نے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے بیوروقائم کرلیے ہیں جبکہ ہیڈ آفس میں کام کرنے والے ورکرزکی تعداد کسی صورت بھی بڑے اخباروں کے نیوزروموں سے کم نہیں ڈیجٹیل دنیا میں تبدیلیاں منٹوں میں وقوع پذیرہوتی ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے اسی حساب سے وسائل درکار ہوتے ہیں لہذا ان کی سرپرستی ضروری ہے -حکومتوں کے ساتھ ساتھ قارئین بھی اشتہاروں کی صورت میں اپنی محبوب ویب سائٹ کو سپورٹ کریں - آج جب قوم وطن عزیزکا71واں یوم آزادی منارہی ہے تو اردوپوائنٹ فیملی یوم آزادی کے ساتھ ساتھ اردوپوائنٹ کی18ویں سالگرہ اس جذبے کے تحت منارہی ہے کہ ہم قومی زبان کی دنیا بھر ترویج کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے- 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :