شان حضرت علی کرم اللہ رضی اللہ عنہ(حصہ اول)

جمعہ 28 اگست 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے جس طرح خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ وتعالی عنہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا اسی طرح آپﷺ نے جناب سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میرے ساتھ تماری مثال ایسے ہی ہے حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نسبت تھی۔

(بخاری و مسلم) ۔ یہ حدیث متواتر ہے قارئین کرام ایک تو یہ بات پلے باندھ لیں کہ قرآن کے بعد حدیث کا درجہ ہے اور حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا اور احکام کو بجالانا ممکن نہیں مثال کے طور پر قرآن میں روزہ‘ نماز‘حج‘نکاح سمیت دیگرفرائض ونوافل کا ذکر ہے مگر ان کی تفصیل نہیں تو نمازکیسے پڑھی جائے؟ اس کے لیے وضوکیسے کیا جائے؟حالت سفر یا بیماری میں فرض نمازوں کی ادائیگی کیسے کی جائے؟ یہ ساری تفصیلات ہمیں احادیث سے ملتی ہے لہذا منکرین حدیث صریحا کفر کرتے ہیں حدیث کا انکار کرکے(اللہ فرماتے ہیں نبیﷺ کچھ نہیں بولتے ماسوائے اس کے کہ جو اللہ انہیں بتایا ہے تو اپنی پوری حیات مبارکہ قرآن کی تشریح ہے)اب مختصر بیان حدیث مواتر کا حدیث مواتر اس روایت کو کہا جاتا ہے جسے ثقہ راویوں کی بڑی تعداد نے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہو اور جن کا جھوٹ پر متفق و متحد ہونا ناممکن ہو یہ تعداد اپنے ہی جیسی تمام صفات کی حامل ایک بڑی جماعت سے روایت کرے ماحذکے ساتھ کہ ان تک یہ روایت کیسے پہنچی؟ ۔

(جاری ہے)

اس راویت کرنے والوں کا صادق وامین ہونا شرط لازم ہے جہاں بھی کوئی کڑی کمزور ہوگی اس حدیث کو نہیں لیا جائے گا یہی اصول اپنا یا امام ابوحنیفہ ‘امام مالک‘امام شافی‘امام احمد بن حنبل ‘امام ذہبی‘حافظ ابن حجرسمیت صحاح ستہ جن میں صحیح بخاری (امام بخاری)‘صحیح مسلم (امام مسلم)‘جامع ترمذی (امام ترمذی)‘سنن ابو داوٴد (امام ابو داوٴد)‘سنن نسائی (امام انسائی) اور سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) شامل ہیں ان کے علاوہ اللہ رسول کریم ﷺ کی احادیث کی حفاظت کے لیے ایسی چھلنیاں لگائیں کہ ضعیف یا جعلی احادیث الگ ہوگئیں اللہ کے ان نیک بندوں نے ایک بھی کڑی کمزور ہونے پر اس حدیث کو چھوڑ دیا چاہیے اس کا ماحذجتنا مرضی معتبر تھا متواتر حدیث کا مفہوم سمجھانے کے لیے یہاں آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ ” جو مجھ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں پائے گا“اس روایت کو بخاری: (107) ، مسلم (3) ، ابو داود (3651) ترمذی (2661) ، ابن ماجہ (30 ، 37) اور احمد (2/159) نے روایت کیا ہے۔

اس روایت کو نقل کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد72 سے بھی زیادہ ہے، اور صحابہ کرام سے یہ روایت بیان کرنے والوں کی تعداد نا قابل شمار ہے ۔ یہاں متواتر حدیث کا بیان اس لیے کیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کو اس حدیث کی اہمیت کا اندازہ ہو آپﷺ نے جناب علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں بیان فرمائی آپ رضی اللہ وتعالی عنہ کا نام علی، لقب حیدر و مرتضیٰ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے آپ حضور ﷺ کے سگے چچا زاد تھے اور 10سال کی عمر سے آپ ﷺ کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے تک نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہے داماد رسولﷺ ہونا بھی آپ کے اعزازمیں ہے محدثین اور سیرت نگاروں کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ آپ ﷺ کا فرمان کہ” حق ہمیشہ علی کے ساتھ رہے گا“اور علی کی مثال قوم شعیب علیہ اسلام کی اونٹی کی سی ہے خبردار اللہ سے ڈرنا “ یہ تمام روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ چنے جانے کے بعد ہونے والی جنگوں کی جانب اشارہ کرتی ہیں ‘آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔

ماں اور باپ دونوں طرف سے آپ ہاشمی ہیں سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود اور چہرے سے عیاں تھیں عبادت و ریاضت کے آثار بھی چہرے پر موجود تھے بدن دوہرا، قدمیانہ، چہرہ روشن و منور، داڑھی گھنی اور حلقہ دار، ناک بلند، رخساروں پر گوشت، غلافی اور بڑی آنکھیں پیشانی کشادہ، کاندھے بھاری اور چوڑے، بازو اور کلائیاں گوشت سے بھری ہوئیں، سینہ چوڑا، چہرہ پر مسکراہٹ اور پیشانی پر سجدے کے نشان معمولی لباس زیب بدن فرماتے، آپ کا عبا اور عمامہ بھی سادہ تھے، گفتگو علم و حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی بچپن سے نہ صرف حضورﷺ کے ساتھ رہے بلکہ آپﷺہی کی آغوشِ محبت میں پرورش پائی، آپ ﷺنے ان کے ساتھ بالکل فرزند کی طرح معاملہ کیا اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطا فرمایا، حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمة الزہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا ‘ایک موقع پر حضور محمد ﷺنے فرمایا کہ”علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں “سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکہ میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شجاعت و بہادری اور فداکاری کا لوہا منوایا بدر و احد، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرات و بہادری کے خوب جوہر دکھائے آپ نے آخری وقت میں حضورﷺ کی تیمارداری کے فرائض سرانجام دیئے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ آپ کو نبی کریم ﷺ کے آخری غسل اور لحد میں اتارنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

فتح مکہ سے پہلے ہونے والی جنگوں میں قریش کے سب سے زیادہ مشرک سردار آپ کے ہاتھوں ہی قتل ہوئے لہذا آپ کی خلافت کے بعد جب قبائلی عصبیتں دوبارہ سر اٹھانے لگی تھیں تو بظاہر مسلمان ہونے والوں کو آپ رضی اللہ عنہ کاٹنے کی طرح کھٹکنے لگے تھے یہ وہ سیاسی وجہ تھی جو سیدنا علی رضی اللہ وتعالی عنہ کی شہادت بنی بنو امیہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگیں اور خلافت ماننے سے انکار سیاسی تھا اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں جبکہ خلیفہ راشد جناب علی رضی اللہ عنہ خالصتا قرآن وسنت کے مطابق عدل انصاف قائم کرنے کے لیے لڑرہے تھے‘یہاں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ‘زبیر اور امہ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی جنگ بالکل مختلف ہے کیونکہ یہ شکست کے بعد نہ صرف میدان چھوڑ گئے بلکہ اپنے کیئے پر پچھتائے اور توبہ کی جس کی مستند ترین روایات موجود ہیں یہاں تک جب حضرت طلحہ وزبیر رضوان اللہ اجمین کے شہادت کی خبر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملی تو امیر المومنین خلیفہ راشد چہارم سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین کو جہنم کی بشارت دی یہی زبیر رضی اللہ وتعالی عنہ تھے جن کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہ ام املمومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے بڑی بہن تھیں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی نہ صرف شہید کروایا گیا بلکہ ان کا جسد مبارک شہر کے دروازے پر کئی دن تک لٹکتا رہا یہاں تک ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے لعنت تعن کرنے پر ابن زبیر رضی اللہ وتعالی عنہ کے جسد مبارک اتارا گیا۔

ہر چیزکو بدعت کہنے والے آج تک بنوامیہ کی قائم کردہ بری ترین بدعتوں پر عمل پیرا ہیں گالیاں دینا درست نہیں مگر جو غلط ہوا اسے غلط کہا جائے چونکہ نازک معاملہ ہے اس لیے انتہائی احتاط کی ضرورت ہے مگر سنت رسولﷺ سے انحراف کو کسی صورت درست نہیں کیا جاسکتا‘امام نسائی کی کتاب سنن نسائی موجود ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں حج کے دوران تلبیہ بند کردیا گیا اور حاجیوں کو پابند کردیا گیا کہ وہ ”لبیک الحمہ لبیک“کہنے پر پابندی عائد کردی گئی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محالفت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انہوں نے تلبیہ پر پابندی لگادی عیدین کا خطبہ جو کہ نبی کریم ﷺ نمازکے آخرمیں دیتے تھے وہ پہلے دیا جانے لگا‘عیدین کی نمازوں کے لیے اذان یا اقامت نہیں تھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں عید کی نمازوں کے لیے اذان اور اقامت کہی جانے لگی‘ نمازوں کے اوقات میں ردوبدل ہوگیانمازجمعہ میں کئی بار خطبہ اتنا طویل ہوتا کہ نمازعصر کا وقت ہوجاتا‘نمازمیں تکبیروں کو ختم کردیا گیاصرف ایک تکبیر کہی جاتی تھی‘امام ابن قیم ‘ امام ابن تیمیہ اور مام بخاری نے اپنی کتابوں میں بیان فرما یا کہ نمازوں کو بدل دیا گیا فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ وتعالی عنہ ایک بار امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں مکہ گئے تو لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو نمازپڑھانے کا کہا مقام ابراہم پر4رکعت کی نمازتھی جس میں 22مرتبہ ”اللہ اکبر “تکبیر آتی ہے آپ رضی اللہ عنہ نے سنت کے مطابق باآواز بلند 22مرتبہ تکبیر بلند کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد نے جاکر انہیں بتایا کہ” ایک بوڑھے احمق نے نمازپڑھائی جو رکوع میں جاتا ہے اللہ اکبر کہتا ہے‘سجدے میں جاتا ہے اللہ اکبر کہتا ہے‘سجدے سے اٹھتا ہے تو اللہ اکبر کہتا ہے“جس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رنجیدہ ہوکر فرمایا کہ تو مرجائے اورتیرے ماں تجھے روئے یہ سنت ہے ابوالقاسمﷺ کی یہاں سے انداہ لگایا جاسکتا کہ صرف ایک ہی نسل کے وقفے میں دین کس قدر بدل گیا تھا ‘نمازوں میں ردوبدل پر آوازاٹھانے پرحجاج نے نبی کریم ﷺ کے خادم خاص جنہیں آپﷺ اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے ان کی آنکھیں جلادی گئیں ان کے جسم پر جلتی سلاخیں لگائیں گئیں (حجاج کے بارے میں حضرت عمر بن عبدالعزیزکا قول ہے کہ اگر دنیا میں خبیثوں کا مقابلہ ہو تو ہم صرف حجاج کو پیش کرکے یہ مقابلہ جیت جائیں گے)ابوحاکم اپنی مستند میں لکھتے ہیں حجاج کے اس ظالمانہ رویہ پر صحابی رسولﷺ آقا دوجہاں ﷺ کے خادم خاص انس رضی اللہ وتعالی عنہ زیادکے پاس شام گئے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر موسی علیہ اسلام کا کوئی خادم ان کی قوم میں ہوتا تو وہ اس کے پاؤں چومتے مگر تمہارے گورنر کے پاس نبی کریمﷺ کے خاد م خاص کی یہ ”عزت“ اور احترام ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ وہاں بھی کلمہ حق کہنے سے نہیں رکے فرمایا” قسم ہے رب کعبہ کی نمازضائع ہوچکی“ صحیح بخاری میں نمازکا باب پڑھ لیں ۔

نمازکو انتہائی آرام اور توجہ سے پڑھناآپ ﷺ اقرباء پروری‘بیت المال کو ذاتی خزانے سمجھنے کا تصور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں قائم ہواحج کے موقع پر تلبیہ کے خاتمے پر طبری نے بھی اس بری بدعت قائم کرنے کو بیان کیا ہے90سال تک عیدکی نمازوں پر اذان دی جاتی رہی اور اقامت کہی جاتی رہی ”طبری “ اور امام حافظ ابن بر کی 24جلدوں پرمشتمل کتاب ”التہمید “کی 10ویں جلد کے صفحہ 244سے امام بنوامیہ کے آپ ﷺ کی سنت کے خلاف کیئے گئے کاموں پر بیان شروع کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے یہ لڑائی اقتدار کی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺکے دین کو بچانے کے لیے تھی جس کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آخری سانس تک لڑی سیاسی رشوت ستانی ‘عہدوں کی بندبانٹ کے مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین اور سنت رسول سے رتی برابر انحراف نہیں کیا آج بنوامیہ کے جرائم کو ”اجتہاد “کہنے والے بھول جاتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ وتعالی عنہ سے بڑا مجتہد کون تھا اس زمانے میں؟ آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی نے بیت المال سے رقم مانگی تو ان حالات میں آپ رضی اللہ عنہ بھی ”اجتہاد “کرسکتے تھے مگر امیرالمومنین نے خلافت اور ملکوکیت میں فرق واضح کردیا فرمایا کہ” یہ یتیموں ‘بیوائیوں اور فقراء کا مال ہے میں اس میں سے تمہیں کیسے کچھ دے سکتا ہوں جبکہ تم اس کے مستحق نہیں“ جس پر وہ جاکر امیر معاویہ کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے حضرت عقیل بن ابوطالبﷺ کی موجودگی کو خوب حضرت علی رضی اللہ وتعالی عنہ کے خلاف استعمال کیا جبکہ احادیث کی کتب میں آتا ہے کہ حضرت عقیل رضی اللہ عنہ نے شاہانہ طبعیت پائی تھی جب وہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوفہ حاضر ہوئے تو ان سے اپنا 40ہزار درہم قرض اداکرنے کا تقاضا کیا جس پر خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں مسلمانوں کا امین ہوں ، آپ چاہتے ہیں کہ خیانت کرکے ان کا مال آپ کے حوالہ کردوں یہ جواب سن کر عقیل چلے گئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم نے علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو کیسا پایا ،جواب دیا ، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح صحابی ہیں ، بس صرف اس قدر کمی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان میں نہیں ہیں ، اور تم اور تمہارے ساتھی ٹھیک ابو سفیان کے حواریوں کی طرح ہو ، مگر اس موزانہ کے بعد بھی دوسر دن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دربار میں انہیں بلوایا کر 50ہزار درہم دلوائے (بحوالہ ابن اثیر کی کتاب اسد الغابہ جلد3 ص 423)عقیل کے شام جانے کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے ان کو مثال میں پیش کرکے ان کو اپنی حمایت میں آمادہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر میں حق پر نہ ہوتا تو علی رضی اللہ عنہ کے بھائی ان کو چھوڑ کر میرا ساتھ کیوں دیتے ایک مرتبہ لوگوں کے سامنے یہی دلیل پیش کر رہے تھے عقیل رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے انہوں نے جواب دیا کہ میرا بھائی دین کے لئے بہتر ہے اور تم دنیا کے لئے یہ دوسری بات ہے کہ میں نے دنیا کر دین پر ترجیح دی ، رہا آخرت کا معاملہ تو اس کے لئے خدا اسے حسن خاتمہ کی دعا کرتا ہوں ‘حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد کے آخرمیں یا یزید کے ابتدائی زمانہ میں وفات پائی۔

یہاں مختصر بیان امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اور انہیں کاتب وحی قراردینے والوں کو جواب تاریخ کے حوالوں سے معاویہ ابوسفیان بن حرب کے بیٹے تھے ان کی والدہ کا نام ہند تھا جنہوں نے غزوہ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجا چبایا تھاظہور اسلام سے قبل ابوسفیان کا شمار رؤسائے عرب میں ہوتا تھا جبکہ ابوسفیان اسلام کے بڑے دشمنوں میں شمار ہوتے تھے فتح مکہ کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا تو ابوسفیان، ہند اور ان کے تمام خاندان نے اسلام قبول کر لیا مگر ہند کے لیے حکم تھا کہ وہ آپ ﷺ کے سامنے نہ آئے یہی معاملہ آپ نے حضرت حمزہ رضی اللہ وتعالی عنہ کے قاتل اور ہند کے غلام وحشی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فرمایا آپﷺ نے وحشی کو معاف فرمادیا اس کا اسلام بھی قبول فرمایا مگر اس کو بھی حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کے سامنے نہ آئے امیر معاویہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے۔

نبی کریم ﷺکے مدینہ ہجرت فرمانے سے تقریباً 15 برس پیشتر مکہ میں آپ کی پیدائش ہوئی آپ ﷺکے اعلان نبوت کے وقت امیر معاویہ کی عمر کوئی 4 برس کے قریب تھی جب اسلام لائے تو زندگی کے25ویں برس میں تھے فتح مکہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابو سفیان کی گزارش پران کے خاندان کی تالیف قلب کے لیے ابوسفیان کے گھر کو بیت الامن قرار دیا یعنی جو شخص ان کے گھر چلا جائے وہ مامون ہے اور ان کے بیٹے معاویہ کوابوسفیان کی سفارش پرآپ ﷺنے خط وکتابت کے لیے کاتب مقرر کیا،تمام ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ انہیں صرف خط وکتابت کے لیے ان کے والد ابوسفیان کی درخواست پر آپﷺ کاتب مقرر کیا تھا اس کے علاوہ بیرون ملک سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال کا کام بھی آپ کے سپرد تھا یہ دور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا آخری حصہ تھا لہذا وحی کی کتابت امیر معاویہ سے ثابت نہیں ہوتی چونکہ فتح مکہ630ہجری میں ہوئی ایک روایت کے مطابق فروری 632ہجری میں نبی کریمﷺنے حجتہ الوادع کیا اور خطبہ مبارک میں اللہ کے حکم سے دین کے مکمل ہونے کا اعلان فرمایا سفر کے فوری بعد آپ کی بیماری شروع ہوئی اور مئی یا جون 630ہجری میں آپﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو فتح مکہ سے لے کر آپﷺکے دنیا سے تشریف لے جانے میں دوسال اور کچھ ماہ کا ہی وقفہ ہی ہے اس لیے امیر معاویہ زیادہ عرصہ آستانہ نبوت سے منسلک نہ رہ سکے جو روایت عبدالرحمان ابی امیرا کی جس روایت کو لے کر کچھ احباب جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی قراردیتے ہیں تو حافظ ابن البر کہتے ہیں کہ ابی امیرا کا صحابی ہونا ثابت نہیں بلکہ یہ تابی تھے اور ان کی روایت کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہے آگے فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں شان میں بہت ساری احادیث بنائی گئیں مگر ان کی روایات درست ثابت نہیں ہوتیں صحابیت کے علاوہ ان کی شان میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہوتی(افتح الباری امام ابن حجر) ۔

ابوبکرصدیق نے آپ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاذ پر بھیجا تو معاویہ بھی ان کے ہمراہ تھے (یہ وہ یزید تھے جن کا نام یزیدبن معاویہ پر چپساں کرکے دھوکہ دیا گیا) عہد فاروقی میں یزید کی وفات کے بعد آپ کو ان کی جگہ دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا رومیوں کے خلاف جنگوں میں سے قیساریہ کی جنگ آپ کی قیادت میں لڑی گئی جس میں 80 ہزار رومی قتل ہوئے تھے عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آپ کو دمشق، اردن اور فلسطین تینوں صوبوں کا والی مقرر کیا اور اس پورے علاقہ کو شام کا نام دیا گیا والی شام کی حیثیت سے آپ کا بڑا کارنامہ قبرص کی فتح ہے۔

عثمان غنی آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور آپ کا شمار عرب کے چار نامور مدبرین میں ہوتا تھا امیر معاویہ نے خوارج سے مقابلہ کیا، مصر، کوفہ، مکہ، مدینہ میں باصلاحیت افراد کو عامل و گورنر مقرر کیا، مصر میں عمرو بن العاص کو حاکم بنایا، پھر ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو بن العاص کو بنایا، ان کے دور حکومت میں جو20سال کو محیط ہے۔

امیر معاویہ بنیادی طور پر ایک دنیاوی حکمران تھے لہٰذا ان کے عہد حکومت کو خلفائے راشدین کے معیار پر جانچنا ایک تاریخی غلطی ہے ان کا اپنا قول ہے ”انا اول الملکوک“ یعنی عربوں میں سب سے پہلا بادشاہ میں ہوں اگرچہ انہوں نے حکومت کا ظاہری ڈھانچہ خلفائے راشدین کے مطابق ہی قائم رکھا لیکن اسلامی طرز حکومت میں مندرجہ ذیل بنیادی تبدیلیاں کیں جس کی وجہ سے مسلم بادشاہت کا آغاز ہوا اور ان کی حکومت خلفائے راشدین کے راستہ سے ہٹ گئی اسلامی تعلیمات میں شخصی حکومت کا کوئی تصور موجود نہیں خلفائے راشدین عوامی تائید و حمایت سے ہی مسند خلافت پر متمکن ہوئے تھے عوام کو ان کے احتساب کا پورا پورا حق تھا لیکن امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنی زندگی ہی میں اپنا جانشین نامزد کر دیا اور اس کے لیے بیعت بھی لے لی یہ بیعت لالچ اور جبر کا نتیجہ تھی یہیں سے اسلام میں شخصی اور موروثی حکومت کا آغاز ہوا خلافت راشدہ کی بنیاد شورائیت پر تھی ان کی رہنمائی کے لیے مجلس شوری موجود تھی جس کے رکن مسلم اکابرین عرب میں سے تھے یہ لوگ پوری آزادی سے ملکی معاملات میں خلیفہ کو مشورہ دیتے لیکن امیر معاویہ نے مجلس شوریٰ ختم کرکے اس کی جگہ اپنے درباری مشیروں کو دے دی یہ مشیر بالعموم ان کے رشتہ دار یا ان کے ہمنوا ہوتے بیت المال خلفائے راشدین کے زمانہ میں قومی امانت سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ خلیفہ کے ذاتی تصرف میں تھا آمد و خرچ میں بھی جائز و ناجائز کی تخصیص روا نہ رکھی جاتی بیت المال کی رقوم عموماً عوامی تائید و حمایت حاصل کرنے کے استعمال کی جاتیں چنانچہ امیر معاویہ کے زمانہ میں بیت المال ”شاہی خزانہ“ کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔

اعلیٰ مناصب پر تقرری کے لیے تقوی اور اہلیت کی بجائے اب خلیفہ کے ساتھ خاندانی اور ذاتی تعلقات بنیادی حیثیت رکھتے تھے خلافت راشدہ سادگی کا انتہائی حسین نمونہ تھی مسجد نبوی ﷺکا صحن قصر خلافت کا کام دیتا تھا لیکن امیر معاویہ نے اپنے دفاتر اور محل قصر و کسریٰ کے نمونہ پر تعمیر کرائے ان کا طرز رہائش بھی شاہانہ تھا محل پر پہرہ دار اور دروازوں پر دربان مقرر کرنے کا طریقہ آپ ہی نے پہلی بار اختیار کیا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹھنے کے لیے ایک ایسی چیز بنوائی تھی جو تخت کے مشابہ تھی اگرچہ آپ رضی اللہ عنہ مسجد میں امامت کے فرائض ادا کرتے تھے لیکن وہاں آپ نے اپنے لیے آڑ (مقصورہ) بنوا رکھی تھی یہ طور طریقے آ نے رومی شہنشاہوں سے مستعار لے کر اپنے ملک میں رواج دیے لٰہذا ان تمام تبدیلیوں کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ امیر معاویہ کے عہد میں مسلم بادشاہت کا آغاز ہوا۔

پھر منبر رسول ﷺ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر لعنت کی بدترین سنت قائم کی گئی جو حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جنہیں خلیفہ راشد قرار دیا جاتا ہے نے خلافت سنبھالتے ہی ختم کیا اور بھی بنو امیہ کی قائم کردہ تمام بری سنتوں کو ختم کردیا خلیفہ راشدرضی اللہ وتعالی عنہ کے خلاف ایک گورنرکا نہ صرف اطاعت سے انکار بلکہ مسلح لشکر لے کر آجانا بغاوت نہیں تو اور کیا کہلائے گا؟آج کوئی گورنروفاق کے خلاف مسلح بغاوت کردے تو اسے کیا کہا جائے گا؟ اسلام میں سب سے پہلے شہادت کا درجہ حضرت یاسر بن عمار کی والدہ حضرت سمعیہ کو ملا جس کے بعد ان کے والد بھی شہید کردیئے گئے اس وقت حضرت یاسربن عمار جوانی میں قد م رکھ رہے تھے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مسجد نیویﷺکی تعمیر شروع ہوئی تو یاسربن عمار رضی اللہ عنہ دوسرے صحابہ کے مقابلے زیادہ پتھر اٹھاکرلارہے تھے جب آپ ﷺ نے دیکھا تو سینکڑوں صحابہ کی موجودگی میں بڑے دکھ سے انہیں خبر دی کہ ”اے عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرئے گا جس طرف تم انہیں بلاؤ گے ادھر جنت ہوگی اور وہ لوگوں کو جہنم کی طرف بلائیں گے “پھر اضافہ فرمایا کہ ”تیرے قاتل کا ٹھکانہ جہنم ہوگا“ یہی وجہ ہے کہ جب ایک سن رسیدہ گھر سوار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے امیر شام کے لشکر کے مقابلے کے لیے نکلا تو بہت ساروں کے دل ڈولنے لگے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ تو سیدنا علی کی طرف ہیں جب کچھ صحابہ نے امیر شام کی توجہ آپﷺکی حدیث کی جانب دلائی تو انہوں نے اپنے لشکر کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے جواب دیا ”فکرنہ کرو جنگ ختم ہونے سے پہلے وہ ہماری طرف آجائیں گے“ اور پھر جب یسار ابن سبوع (ابوالغادیہ) نے حضرت یاسربن عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تو امیر شام کے لشکر میں دوبارہ کھبلی مچ گئی تو یہاں بھی مکر وفریب سے کام لیا گیا اور یہ جواز پیش کیا گیا کہ ”عمار کے قاتل ہم نہیں علی رضی اللہ عنہ ہیں جو انہیں ہمارے نیزوں کے سامنے لائے“ جب سیدنا علی کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا کہ ”جاؤ معاویہ سے پوچھو کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر شہدا بدراور احد کے قاتل نعوذبااللہ نبی کریمﷺ تھے“ کیونکہ مشرکین مکہ کے خلاف تو نبی کریم ﷺ ہی بدر اور احد میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو لے کر گئے تھے سیدنا علی کا امیر شام کے کی تاویل کے جواب میں استدلال بالکل درست تھا نبی کریمﷺ کا فرمان مبارک سچ ثابت ہوا مگر اللہ نے دلوں پر مہرئیں لگادی تھیں وہ حق و سچ کو سامنے دیکھتے اسے تسلیم نہیں کررہے تھے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :