توجہ مانگتا ہے سلگتا ہوا موضوع

جمعرات 11 جون 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 مملکت پاکستان ہمارے لیے اللہ تعالی کی نعمت اور انعام ہے‘ پاکستانی کی حیثیت سے اس کی قدر ہم پر لازم ہے‘ مملکت کے نظام کے لیے ہمارا ایک آئین ہے‘ دستور پاکستان ہمارا آئین کہتا ہے کہ ہر شہری ریاست کا وفادار ہوگا‘ آئین کے بعد اخلاق اور قومی ذمہ داری ہے‘ اس کا تقاضہ ہے کہ بطور شہری آئین کی پاسداری کریں‘ اور بطور سرکاری ملازم جہاں جہاں بھی کام کرتے ہوں‘ اس ادارے کے اثاثے شیر مادر کی بجائے قومی امانت سمجھیں‘ ہمارے قومی اداروں میں سرکاری ہسپتال‘ تعلیمی ادارے‘ او جی ڈی سی ایل‘ آئل اینڈ گیس‘ وفاقی وزارتوں کے ڈیپارٹمنٹ‘ پی آئی اے غرض درجنوں اور سینکڑوں ملکی ادارے ہیں جو پاکستان کے قومی اداروں کی پہچان رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے لیے یہ اہمیت کے حامل ہیں اور یہ ادارے بھی ہمارے لیے اللہ کی نعمت سے کم نہیں ہیں‘ لیکن برسوں ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے اور سنا بھیجاتا ہے قومی اداروں میں کرپٹ عناصر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں‘ جو وسائل ضائع بھی کر رہے ہیں اور لوٹ بھی رہے ہیں‘ ابھی گزشتہ ماہ پی آئی اے کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا‘ اس حداثے کے بعد پائلٹ ایسو سی ایشن پالپا اور کنٹرول ٹاور آمنے سامنے ہیں‘ دونوں میں سے کوئی بھی اس حادثے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں‘ تاہم تحقیقاتی رپورٹ میں سب کچھ سامنے آجائے گا‘ مگر یہ رپورٹ بھی وہ قیمتی انسانوں اور معصوم بچوں کی جانیں واپس نہیں لاسکتی‘ جو اس حادثے میں ضائع ہوئیں‘ سرکاری ہسپتال کی کہانیاں اس سے بھی بڑھ کر خوفناک ہیں‘ ہر اینٹ کے نیچے کرپشن کی ایک کہانی ہے‘ او جی ڈی سی ایل بھی ہمارا قومی ادارہ ہے یہاں جو کچھ ہورہا ہے اس کی کسی کو فکر ہی نہیں‘ وزارت پیٹرولیم تو خاموش ہے‘ لہذا جو جس کے دل میں آئے کیے جارہا ہے‘ ملازمین کی ترقی‘ ان کی تقرری اوران کی سالانہ کاکردگی کی رپورٹس کے عمل کاہی جائزہ لے لیا جائے تو بے شمار کیسز ہیں جو میرٹ کی گردن پر پاؤں رکھ کر آگے آئے ہوں گے‘ کوئی تو پوچھے کہ اعتزاز الدین‘ جمال ناصر اور رازق خٹک جیسے ملازمین کا کیا قصور کیا ہے اور ان جیسے بے شمار ہیں جو اپنی ترقی کے منتظر ہیں اور انہیں ترقی نہیں مل رہی‘ کوئی تو یہ بات معلوم کرے کہ ادارے میں جونیئر سینئرز پر کیوں سبقت لے جارہے ہیں‘ زاہد میر سے بہت توقعات تھیں مگر وہ بھی ادارے میں بہتری لائے بغیر چلے گئے‘ اور ان کی جگہ اب نئے ایم ڈی آگئے ہیں ان سے توقع تھی مگر وہی ڈھاک کے تین پات‘ اور پرنالہ وہیں کا وہیں ہے‘ یہ بات معلوم کرنے والی آخر وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جو گھمائی جائے تو جونیئر سینیرز کی جگہ آجاتے ہیں‘ کیا سفارش؟‘ کیا خوشامد؟ اس چھڑی کے ساتھ بندھی ہوئی ہے‘ یا کرپشن چھپانے کے لیے تقرریاں کی جاتی ہیں اور اختیارات کسی اہل کے حوالے نہیں کیے جاتے‘ وزارت پیٹرولیم توجہ دے اور ادارے میں ملازمین کی بے چینی کو انصاف کے ساتھ میرٹ کا اصول بنا کر حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے‘ یہ کام ایم ڈی خود بھی کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے انہیں کسی خاص گروہ کی نہیں بلکہ تمام ملازمین کی بات سننا ہوگی اور ہاتھ میں ایک ایسی میزان پکڑنا ہوگی اور جس کے پلڑے دونوں جانب برابر ہوں‘ انہیں بطور سربراہ اور فیصلہ لیتے ہوئے بطور منصف اللہ کے نمائندے کے طور پر معاملات کو دیکھنا ہوگا‘ کیونکہ وہ بطور ایم ڈی اس ادارے کے کسٹوڈین ہیں‘ وہ سب کے لیے سانجھے ہیں‘ وہ سب ملازمین کے ایم ڈی ہیں‘ بہتر ادارہ وہ ہوتا ہے جس کی انتظامیہ اور ملازمین باہمی اعتماد کے ساتھ کام کریں‘ وہ ادارہ ترقی بھی کرتا ہے‘ او جی ڈی سی ایل کے بعد حکومت کو اسٹیل ملز کی جانب بھی توجہ دینا ہوگی‘ اور اسے سیاسی اثرات سے پاک کرکے صرف اصولوں کی بنیاد پر میرٹ کے فیصلوں کے ساتھ چلانا ہوگا‘ ابھی تو اس کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے اور اس پر کب تک عمل درآمد ہوگا یہ منزل پانے تک شاید ابھی وقت لگے گا‘ لیکن کیا وجہ ہے کہ حکومت تمام تر وسائل کے ہوتے ہوئے کیوں اسے نہیں چلا سکی‘ اور نجی ادارہ اسے کیسے چلائے گا‘ ایک رائے یہ دی جاتی ہے کہ یونین کام نہیں کرنے دیتی‘ لیکن جن جن اداروں میں پاکٹ یونینز بنائی جائیں مسائل بھی انہی اداروں میں پیدا ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ یونین نہیں بلکہ پاکٹ یونین جہاں بھی ہیں وہاں مسائل بڑھ رہے ہیں کم نہیں ہو رہے‘ اس وقت ملک میں تحریک انصاف مرکز میں حکومت کر رہی ہے‘ وفاقی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ میرٹ کی بات کرتے ہیں‘ انصاف کی بات کرتے ہیں لیکن شاید معاملہ آڈٹ کے جھمیلوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے‘ جہاں بھی آڈٹ نہیں ہوتا وہاں مسائل ہوتے ہیں‘ جہاں آڈٹ کرنے والے خود ہی ساتھ مل جائیں وہاں تباہی ہوتی ہے اور ان تمام اداروں میں کرپشن کی بیماری کبھی ختم نہیں ہوسکتی‘ وزیر اعظم نے ایک پورٹل بنا رکھا ہے کہ ہر شہری اس میں شکائت درج کرا سکتا ہے مگر صرف یہی کافی نہیں ہے‘ مسلئہ یہ ہے کہ جس کے خلاف شکائت ہوگی انکوائری بھی اگر اس نے ہی کرنی ہے تو پھر احتساب بھی ہوچکا‘ اور میرٹ کی حکمرانی بھی آچکی‘ گزارش یہ ہے کہ وزارت پیٹرولیم نیند سے بیدار ہو‘ جاگے اور دیکھے کہ اس کے زیر نگرانی کام کرنے والے اداروں میں کیا ہو رہا ہے‘ اسی طرح وزارت صنعت بھی بیدار ہو اور جائزہ لے کہ پاکستان اسٹیل ملز کیوں فروخت کرنا پڑی ہے؟ پی آئی اے کی انتظامیہ بھی کروٹ بدلے اور دیکھے کہ قومی ائر لائن کیوں خسارے میں جارہی ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :