جماعت اسلامی… آفاقی پیغام‘ آواز محدود کیوں؟

ہفتہ 10 اکتوبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 جماعت اسلامی پاکستان کی سیاست میں ایک اہم نام اور کردار ہے‘ ایک عرصے سے یہی ہورہا ہے کہ جب بھی سیاسی تجزیہ کاروں کی محفل جمی‘ ہمیشہ یہ بات زیر بحث رہی ہے کہ جماعت اسلامی انتخابات میں اکثریتی پارٹی کے طور پر پارلیمنٹ میں کیوں نہیں پہنچ پاتی؟ بلاشبہ اس کی شہرت ایک منظم اور جمہوری جماعت کی ہے‘ جس میں عہدیداروں کا انتخاب‘ آئین کے دیے ہوئے تقاضوں کے تحت ہوتا ہے تاہم یہاں موروثی عمل نہیں ہوسکتا‘ بلکہ جماعت اسلامی کے دستور میں دیے ہوئے طریق کار اور معیار اس راہ میں رکاوٹ ہے‘ یہ بحث کہ جماعت اسلامی ایک مقبول عام سیاسی جماعت کیوں نہیں بن سکی‘ یہ سوال اور بحث اپنی جگہ باالکل درست ہے‘ یہ بحث جاری رہے گی تو اصلاح احوال کی بھی کوئی صورت سامنے آئے گی‘جماعت اسلامی کی بنیاد1941 میں رکھی گئی‘ یوں اس کی عمر79 برس ہوچکی ہے‘ جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت کے طور پر کیوں نہیں پہنچتی؟ یہ ایک وسیع موضوع ہے اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں کھلے دل سے‘ غیر جانب دارانہ اور حقیقی رائے کا اظہار اور اس رائے کو برداشت بھی کرنا ہوگا‘ بہتر یہ ہوگا کہ جماعت اسلامی کی قیادت خود آگے بڑھے اور اس سوال پر دانش وروں‘ تجزیہ کاروں‘ پولیٹیکل سائنس کے اساتذہ اور طالب علموں‘ سماجی کارکنوں‘ معیشت دانوں سے ان کی رائے معلوم کرے‘ اوراس رائے کی روشنی میں جو بہتر اور مناسب سمجھے‘ لائحہ عمل بنایا جائے‘ ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کی عظمت رفتہ کب بحال ہوگی‘ اس سوال کو یوں لے لیا جائے کہ کیا جماعت اسلامی خود بھی اپنی عظمت رفتہ بحال کرنا چاہتی ہے یا نہیں؟ تاریخی حوالہ ہے کہ جماعت اسلامی ماچھی گوٹھ کی گلی سے نکل کرپہلی بار1970 کے عام انتخابات کے معرکہ کے لیے میدان میں اتری تھی‘ تب اس کے دامن میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمائت کے پھول تھے‘ اس انتخابی معرکہ میں جماعت اسلامی کو کل ڈالے گئے ووٹوں کا چھ فی صد حصہ ملا‘ مغربی پاکستان سے اس کے چار امیدوار جماعت اسلامی کے پیغام اور منشور کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں پہنچے‘ سات سال کے بعد ملک میں اگلے انتخاب ہوئے‘ ان سات سالوں جماعت اسلامی بنگلہ دیش نامنظور جیسی تحریک‘بھٹو حکومت کے خلاف مزاحمت‘ اس دور کے فسطائیت کے مقابلے میں جرائت اور ہمت کے تن آور درخت کی چھاؤں میں بیٹھی تھی مگر پاکستان قومی اتحاد‘ ۹ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا حصہ بن گئی‘ جہاں اس کی ساری سیاسی جدوجہد ایندھن بن کر جل گئی‘ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک بھٹو حکومت کا سر تو لے گئی مگر بعد میں مارشل لاء کی حمائت بھی سیاسی جدوجہدکی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے کا باعث بنی‘1985 میں ملک میں صدارتی ریفرنڈم ہوا‘ جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے اجلاس کے فیصلے کا قوم کو شدت سے انتظار رہا‘ مجلس شوری کا وہ فیصلہ آج تاریخ کا حصہ ہے‘ اس ریفرنڈم کے بعد ملک میں غیر جماعتی انتخاب ہوئے‘ جماعت اسلامی کی حمائت سے جو امیدوار کامیاب ہوئے‘ انہیں پارلیمانی تاریخ میں جماعت اسلامی کے ریکارڈ میں شامل نہیں کیا جاسکتا‘ تین سال کے بعد1988 میں عام انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی آئی جے آئی میں شامل ہوئی‘1990 میں پھر اسی اتحاد کی رکن جماعت کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا‘1993 میں پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے انتخابی عمل میں شریک ہوئی‘ جو امیدوار کامیاب ہوئے انہیں بھی پارلیمانی ریکارڈ میں جماعت اسلامی کے کھاتے میں شمار نہیں کیا جاسکتا‘1997 میں انتخابات شریک نہیں اوربائی کاٹ کیا‘ اور بعد میں 2002 میں متحدہ مجلس عمل چھ جماعتی اتحاد میں شامل ہوئی‘2008 کے انتخابات کا پھر بائی کاٹ کردیا‘ اور2013 میں اکتالیس سال کے طویل وقفے کے بعد جماعت اسلامی اپنے انتخابی نشان ترازو پر انتخابی معرکہ میں اتری‘ اس کے بعد2018 کے انتخابات میں دوبارہ متحدہ مجلس عمل کا حصہ بن گئی‘ اب اصل میں جو سوال جماعت اسلامی کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے اٹھایا جاتا ہے یہیں سے اس سوال کا جواب مل جاتا بلکہ نیا سوال کھڑا ہوجاتا ہے کہ کیا جماعت اسلامی خود بھی اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے سنجیدہ ہے‘ کوئی سیاسی جماعت اکتالیس کے طویل وقفے کے بعد اپنے انتخابی نشان اور اپنے جماعتی جھنڈے کے ساتھ میدان عمل میں آئے تو اسے بحال ہونے کے لیے گزرے ہوئے اکتالیس سے دو گنا یا کم از کم اتنا ہی وقت تو چاہیے ہوگا مگر شرط یہ ہے کہ یہ آئندہ کسی نئے اتحاد کا حصہ نہ بنے‘ 1970 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 162 نشستیں مشرقی پاکستان میں اور 138 مغربی پاکستان میں تھیں‘ پیپلز پارٹی مغربی پاکستان اور مشرق میں عوامی لیگ‘ جماعت اسلامی کے مدمقابل تھیں‘ بڑا زبردست معرکہ ہوا‘ تب جماعت اسلامی مجموعی طور پر ووٹرز کی دوسری بڑی پسندیدہ جماعت تھی‘ مسلم لیگ (قیوم) جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) اور جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) جیسی جماعتیں بھی میدان میں تھیں‘ مگر پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ کا اصل مقابلہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہی تھا‘ عوامی لیگ نے 160 نشستوں کی اکثریت حاصل کی، یہ تمام تر مشرقی پاکستان میں تھی پیپلز پارٹی نے کل 81 نشستیں جیتیں‘ صوبائی انتخابات میں، مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا دوبارہ غلبہ رہا، پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی‘ نیشنل عوامی پارٹی شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان میں کامیاب ہوئی‘ جماعت اسلامی سخت مقابلے کے ساتھ ان کے مد مقابل رہی‘ جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت اس لیے تھی کہ اسے سید مودودی نے اپنے سیاسی طرز عمل سے ایک مقبول جماعت بنایا تھا‘ جماعت اسلامی کو اتحادوں اور بائی کاٹ کی سیاست نے نقصان پہنچایا‘ آج کے سیاسی مزاج میں ایک بات باالکل واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ خدمت اور قدرتی سانحات میں عوام کے لیے سماجی خدمات سیاسی ووٹ بنک بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں‘1970 کے انتخاب کے وقت بھی بھولا طوفان نے مشرقی پاکستان کو بدترین نشانہ بنایا تھا۔

(جاری ہے)

یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا سمندری طوفان تھا، جس نے پانچ لاکھ افراد پانی میں بہا دیے تھے‘ پس منظر جو بھی تھا‘ انتخاب میں ووٹرز نے عوامی لیگ کا ساتھ دیا‘ یہ بات سمجھ لی جائے کہ جماعت اسلامی آج بھی الخدمت فاؤنڈیشن کی سماجی خدمات کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی بلکہ اسے انتخابات میں کامیابی کے لیے بہترین قابل قبول سیاسی بیانیہ دینا ہوگا‘1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 300 نشستوں کے لئے عوامی لیگ کے پاس 170 امیدوار تھے، جن میں سے 162 مشرقی پاکستان کے انتخابی حلقوں کے تھے‘ جماعت اسلامی کے پاس دوسرے نمبر پر 151 امیدوار تھے‘ پیپلز پارٹی کے صرف 120 امیدوار تھے، جن میں سے 103 کا تعلق پنجاب اور سندھ کے انتخابی حلقوں سے تھا، اور کوئی مشرقی پاکستان میں سے نہیں تھا۔

مسلم لیگ (کنونشن) میں 124، مسلم لیگ (کونسل) کے 119 اور مسلم لیگ (قیوم) کے 133 امیدوار تھے اس وقت تقریبا 63٪ ووٹرز کا ٹرن اوور تھا اور ملک میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 56،941،500 تھی جن میں سے 31،211،220 مشرقی پاکستان اور 25،730،280 کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا‘ عوامی لیگ کو بتیس فی صد‘ پیپلزپارٹی کو اٹھارہ فی صد‘ جماعت اسلامی کو اس وقت1989461 ووٹ ملے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا چھ فی صد تھے‘ اور اس کے چار امیدوار کامیاب ہوئے تھے تھے‘ جے یو آئی‘ اور جے یو پی کے مقابلے میں جماعت اسلامی کو ذیادہ ووٹ ملے تھے‘ بلاشبہ جماعت اسلامی کا یہ ووٹ بنک اتحادوں کی سیاست کی نذر ہوا‘ جماعت اسلامی کی قیادت کو چاہیے کہ وہ انتخابی معرکے لیے کسی اتحاد میں جانے کی بجائے بڑا سیاسی جمہوری بیانیہ اٹھائے‘ جسے جمہوریت پسند حلقے‘ میڈیا‘ اور خواتین‘ سمیت ملک کی اقلیتی برادری‘ معیشت دان اپنا بیانیہ سمجھیں اس بیانیے کی تشکیل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا‘ جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کو اپنے اندر کی آواز اور باہر کی آواز بھی سننی چاہیے اور انتخابات کو انتخابات سمجھ کر لڑنا چاہیے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :