پی ڈی ایم کے اختلافات میں خبر

جمعہ 19 مارچ 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ ایک سیاسی کے اتحاد میں شامل جماعتیں یوں باہم دست و گریبان ہوئی ہوں، جمہوری محاذ ہو یا پاکستان قومی اتحاد، مجلس عمل ہو یا ایم آر ڈی، جی ڈی اے ہو یا پاکستان جمہوری محاذ، پاکستان میں بننے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد اس طرح ہی چلتے ہیں اور چلتے آئے ہیں، یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی بھی حکومت اپوزیشن اتحادوں کے اختلاافت سے فائدہ نہیں اٹھاسکی، بھٹو حکومت اپنے عروج پر تھی، اور پیپلزپارٹی سمجھ رہی تھی کہ اسے کوئی چیلنج نہیں دے سکتا، مگر کیا ہوا؟ بھٹو نے انتخابات کی تاریخ دی تو عین اسی رات پاکستان قومی اتحاد وجود میں آگیا، اس اتحاد کی تشکیل سے قبل اپوزیشن جماعتیں باہم دست و گریبان تھیں، پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل کیا ہوئی، بھٹو حکومت کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی گئی، اس اتحاد کی تشکیل کے وقت کہا گیا کہ یہ اتحاد نہیں چل پائے گا، بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ” مولوی ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے یہ ایک اتحاد میں کیسے رہ سکتے ہیں“ بھٹو نے جو کچھ کہا، وہ سب نے سنا، مگر پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان قومی اتحاد بھٹو حکومت کا سر لے گیا، پاکستان قومی اتحاد کے بعد ملک میں ایم آر ڈی کی صورت میں دوسرا بڑا سیاسی اتحاد تشکیل پایا، اس وقت ضیاء الحق کا دعوی اس اتحاد سے متعلق کچھ بھی ہو، یہ اتحاد ضیاء الحق کو ملک میں عام انتخابات کرانے پر مجبور کرگیا، اسلامی جمہوری اتحاد، آئی جے آئی کی تشکیل ہوئی، مقصد یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کا راستہ روکا جائے، اس اتحاد کو طعنے دیے گئے، مگر اس اتحاد نے نتائج دیے، غرض یہ کہ سیاسی اتحادوں کی تاریخ یہی رہی ہے کہ یہ کتنے بھی کمزور کیوں نہ ہوں، اس میں شامل جماعتیں باہم دست وگریبان ہی کیوں نہ رہتی ہوں، حکومت کے لیے وبال جان بنی رہتی ہیں، اس وقت ملک میں ایک بحث جاری ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ گیا ہے، کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی باہم متصادم ہیں، سخت ٹکراؤ ہے مگر حکومت کے لیے اس میں اپنے لیے کوئی خبر نہیں ہے، یہ اتحاد یوں ہی آگے بڑھتا رہے گا، اور اہداف بھی حاصل کرتا رہے گا، ہا ں ایک سوال ہے کہ اور اس کا جواب ضرور آنا چاہیے، جواب پیپلزپارٹی کی قیادت دے یا مسلم لیگ(ن)، مولانا فضل الرحمن جواب دیں یا اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں جواب کے لیے سامنے آئیں، سوال یہ ہے کہ جس ایوان میں اکثریت ہی نہیں تھی وہاں اسے کامیابی کیسے ملی اور جہاں اکثریت تھی وہاں اس کے امیدوار کو ناکامی کیوں ہوئی؟ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں کسی بھی طرح نئی نہیں ہیں انہیں ملکی سیاست میں رہتے ہوئے عشرے گزر گئے ہیں، اس کی لیڈر شپ کالے بالوں کے ساتھ آئی تھی اب بال بھی سفید ہوچکے ہیں اور یہ دھوپ میں بیٹھ کر سفید نہیں کیے، سیاسی رہنماؤں کے بیانات میں ہی خبر چھپی ہوئی ہوتی ہے کہ سینیٹ انتخابات سے دو روز قبل جناب شبلی فراز نے بیان دیا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کامیابی کے لیے ہر حربہ اختیار کریں گے، اس بیان میں حکومت نے اپنی ترجیحات کھول کر سامنے رکھ دی دی تھیں، اپوزیشن اتحاد کیوں نہ سمجھ سکا، چلیے آج اس پر بات کر لیتے ہیں وہ حربہ کیا تھا؟ حربہ یہ تھا کہ چونکہ یہ چناؤ الیکشن کمشن نے نہیں کرنا، سینیٹ کے ارکان نے ہی اپنے کسی سینیئر سینیٹر کی نگرانی میں یہ کام کرنا تھا، جیسے گزشتہ تین سال قبل مسلم لیگ(ن) کے سردار یعقوب ناصر کی نگرانی میں انتخاب ہوا تھا، اس بات سید مظفر علی شاہ کے نام قرعہ نکلا، لہذا حکومت نے جو حربہ اختیار کرنا تھا کر لیا، اب پی ڈی ایم جانے اور عدلیہ، پی ڈی ایم عدلیہ کے روبرو یہ مقدمہ لے کر پیش ہوگئی تو قانون کی ہر کتاب پی ڈی ایم کے حق میں بولے گی، مگر شرط کیا ہے؟ پیپلزپارٹی کس شرط پر عدالت جائے گی ؟ اگر اس کا کام عدالت جائے بغیر ہوجائے تو اسے اور کیا چاہیے، پیپلزپارٹی ریلیف مانگ رہی ہے جو اسے ملنے جارہا ہے، یہی تو سیاسی اتحاد کی برکت ہے، تحریک انصاف نے بھی یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ تنہاء چلنے کی بجائے اتحاد بنائے گی، حکومت میں وہ جی ڈی اے کی اتحادی ہے اور پارللیمنٹ کے باہر اسے ایک اتحادی کی تلاش ہے، ہوسکتا ہے کہ ملک کی کوئی اہم سیاسی جماعت حلقہ بگوش تحریک انصاف ہوجائے، لانگ مارچ ملتوی کیے جانے کا علان ہوا اورمریم نواز بھی نیب نے طلب کرلی گئیں اسے کچھ نئے شواہد مل گئے ہیں، احتساب ایبڈو کا بے رحمانہ کھیل ہے یہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا، لیکن یہ کھیل کہیں رک بھی گیا ہے، یہ کسی ایک قوت کے زوال کاآغاز بھی ہے مولانا فضل الرحمن نے جو کچھ کہا، وہ حرف آخر نہیں، جو سمجھتے ہیں پی ڈی ایم گئی انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ موڑ سیاسی ماحول کے لیے ایک نیاموضوع ہے، اب بحث یہ ہوگی کہ کس کی جیت اور کس کی ہار ہوئی ہے، ہوسکتا ہے کہ اب مقابلہ نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری میں ہو، تاہم آصف علی زرداری، کسی موقع کی تلاش میں تو ہیں مگر اپوزیشن کے ساتھ کسی مقابلے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان میں کوئی کسی پر بھاری نہیں ہے، صرف مسلم لیگ(ن) نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا کرے؟ مریم نواز جیل میں جائے یا جیل سے باہر رہے، پنجاب کی سیاست اب انہی کے گرد گھومے گی، وہ دفاعی لائن اختیار کرتی ہیں یا جارحانہ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا نواز شریف اور مریم نواز کو فوری جواب چاہیے مسلم لیگ چاہتی ہے بیانیہ زندہ رہے جس کے بغیر اس ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی، پی ڈی ایم جہاں بھی جائے اور جیسے بھے کھڑا ہو، بیٹھ جائے یا لیٹ جائے،نوازشریف نے سیاست کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں مفاہمت کی گنجائش باقی نہیں رہی، صرف لڑائی ہے جو تختہ دار تک توپہنچا سکتی ہے، ِ اقتدار میں واپس نہیں لاسکتی، یہی دوٹوک موقف انہیں ایک روز فائدہ پہنچا جائے گا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :