قائد اعظم ایک مطالعہ

بدھ 18 ستمبر 2019

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

حضرت قائد اعظم محمد علی جناح جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ”قائد اعظم ایک مطالعہ“ کتاب میں محمود اختر خان صاحب نے نامی گرامی دانشورں کی تحریروں کو یک جا کر کے بانیِ پاکستان کو ایک نئے انداز میں عوام میں روشناس کرایا ہے۔ اس کی تفصیل ہم تحریک پاکستان اور قائد اعظم پر کچھ عرض کرنے کے بعد بیان کریں گے۔کیا قائد اعظم  کا یہ عظیم کارنامہ نہیں کہ برٹش ہندوستان میں ،جہاں اُس وقت دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل برطانیہ ،جس کا دنیا میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، جو جاتے جاتے اقتدار ہندوؤں کو سوپنے کی سازشوں میں مصروف عمل تھا ، دوسری طرف دنیا میں ترقی کرتی ہوئی کیمونسٹ تحریک جو سازشوں سے ملکوں میں اقتدار پر قبضہ کر کے اپنے باطل نظریات کو دنیا میں پھیلا رہی تھی، ان کے گرگوں کو جمہوری انداز میں شکست دی اور قادیانی جن کو یہود،ہنود اور نصارا نے برصغیر میں مسلمانوں کے مذہب میں نقب لگا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کھڑا کیا تھا کو زیر کر کے دنیا میں آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست ِ پاکستان کو مذہب کے نام پر حاصل کیا تھا۔

(جاری ہے)

یہ عناصر پاکستان بننے اور قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے اسلامی تشخص اور اسلام اور قرآن کے شیدائی، قائد اعظم کو سیکرلر ثابت کرنے کا ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے اور اب بھی لگا رہے ہیں۔ یہ پاکستان کو ختم یا سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب اللہ کے سامنے پاکستان کا مطلب کیالا ا لہ الا اللہ کا وعدہ کیا۔

تو اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کی لیڈر شپ میں برصغیر کے مسلمانوں کو تحفتاً مثل مدینہ پاکستان پیش کیا تھا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے برطانیہ نے جاتے جاتے پاکستان کے جسم پر چھرا کھومپ کر کشمیر کو جانے والا واحد راستہ ،درہ دنیا ل بھارت کو دے دیا تھا۔ ضلع گرداس پور میں ساری آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ تقسیم برصغیر کے طے شدہ فار مولہ کے تحت اسے پاکستان میں شامل ہونا تھا۔

مگر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ایساکیا گیا۔اس کا مقصد پاکستان کی شہ رگ کشمیر بھارت کے حوالے کرنا تھا۔اس لیے ہم لکھتے رہتے ہیں کہ کشمیر برطانیہ کا کھڑا کیا ہوا مسئلہ ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں میں فریضہ جہاد فی سبیل اللہ کو ختم کرنے کے لیے قادیانیوں کو سازش سے آگے بڑھانے کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے پاکستان بننے کے بعد ایک وقت پاکستان کی فضائی فوج کا سربراہ قادیانی،بحری فوج کا سربراہ قادیانی اور بری فوج کا ڈپٹی قادیانی تھے۔

قادیانی فوجی قوت کے بل بوتے پر نئے پاکستان کو قایانی اسٹیٹ بنانے کی انتھک کو شش کرتے رہے مگر وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان صاحب نے قادیانیوں کو فوج کے عہدوں سے ہٹا دیااور پاکستان محفوظ رہا۔کیمنسٹوں نے رولپنڈی سازش کر کے پاکستان میں فوج کے ذریعہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ جس میں مشہور کیمونسٹ لیڈر،لینن انعام یافتہ شاعر فیض احمد فیض بھی گرفتار ہوا تھا۔

اس سازش سے بھی اللہ نے پاکستان کو محفوط رکھا ۔ سیکولرسٹ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ میں شامل ہو کر پاکستان کے اسلامی تشخص اور قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی ،جو اب بھی کرتے رہتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران، ان لوگوں کے دلوں میں پاکستان مخالف سوچ پنپ رہی تھی۔ ایسی سازشوں رکھنے والوں کو شکست دے کر کیا کوئی عام سیاستدان پاکستان بنا سکتا تھا؟۔

نہیں ممکن نہیں تھا! یہ کام وہ کر سکتا تھا جس کے خمیر میں اسلام رچ پس گیا تھا، وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھا۔ بظاہر تو قائد اعظم  ایک خوجہ خاندان میں پیدا ہوئے۔مگر ان کے اندر ایک سچا مومن چھپا ہواتھا۔
 ان ہی خصوصیات کو محمود اختر خان صاحب نے اپنی کتاب” قائد اعظم۔ایک مطالعہ“ میں باغِ دنیا سے مختلف قسم کے پھول چن چن کر ایک گلدستہ تیار کیا ہے۔

پہلے حصہ میں اس باغ کے پھول سید صابر حسین شاہ صاحب نے قائد اعظم  کو اپنے کئی مضامین میں قرآن کا شیدائی اور سچا مسلمان ثابت کیا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے قرآن کو واقعتا اپنا رہنما بنا لیا تھا۔ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ ہی نسخہ کیمیا ہی مسلمانوں کی تقدیر بدل دینے کی قوت رکھتا ہے۔ عبدالرحمٰان خان، منشی کی کتاب” قائداعظم  کا مذہب اور عقیدہ“ مطبوعہ لاہور صفحہ ۱۹۳ ، کاحوالہ دے کرکہتے ہیں کہ قائد اعظم  نے عید الفطر نومبر ۱۹۳۹ء کے موقعہ پر بمبئی میں فرمایا تھا”مسلمانوں! ہمارا پروگرام قرآن پاک میں موجود ہے۔

ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی اور دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی“․․․کتاب کے اگلے حصہ میں راجا رشید محمود صاحب نے اپنے مضامین میں قائد اعظم  کی اسلام سے محبت، عشق رسول ، نظریہ پاکستان،تعمیر ملت،نظم ضبط اور اُردو کو قومی زبان بنانے کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

کتاب کے صفحہ نمبر ۷۹ پر یہ صاحب لکھتے ہیں کہ قائد اعظم  نے ملت مسلمہ کو قرآن مجید کے مرکز پر اکٹھا کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو اس نکتہ پر جمع کیا کہ دنیا دھنگ رہ گئی۔ قائد اعظم  ۱۹۴۳ء میں کراچی میں آل اندیا مسلم لیگ کے اجلاس میں حاضرین سے فرمایاکہ” وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔وہ کون سی چٹان ہے،جس پر ان کی ملت استوار ہے۔

وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے․․․ وہ رشتہ․․․ وہ چٹان․․․ وہ لنگر․․․ خدا کی کتاب قرآن کریم ہے“ ایک اور دانشور ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب نے قائد اعظم  حیات و خدمات کے اچھوتے پہلو، قائد اعظم  کا امتیاز، تحریک خلافت اور شخصی صفات پر روشنی ڈالی۔۱۹۰۶ء میں قائد اعظم  نے سیاست میں قدم رکھا۔۱۹۰۶ء سے مسلسل ۱۹۴۷ء مستقل جدو جہد، دور اندیشی،جرأت مندی، حق گوئی کی مثال قائم کی۔


برصغیر کی سیاسی زندگی میں بڑے نشیب فراز اور کشمکش و اضطراب کا زمانہ ہے۔مسلمان ایک طرف حکومت کی بے توجہی اور ظلم و زیادتی کا شکار تھے اور دوسری طرف ہندوؤں کی نفرت، ان کی نمائندہ سیاسی جماعت آل انڈیانیشنل کانگریس کی مخالفانہ تحریکوں اور مسلم کش فسادات کے نرغے میں تھے۔ قائد اعظم مسلمانوں کومتحدہ اور منظم کرنے میں بلا آخر کامیابی حاصل کی اور قیام پاکستان کے ذریعے ملت کو اس منزل تک پہنچایا جو اس کے لیے ایک معینہ مقدر کی علامت تھی۔

پاکستان کا حصول محض ان کی شخصی صفات کی وجہ سے آسان ہو سکا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب فرماتے ہیں برصغیر میں اُردو، سندھی،پنجابی ،پشتو،بلوچی اور سرائیکی وغیرہ فارسی رسم الخط میں یعنی دائیں سے بائیں کو لکھی جاتی تھیں۔ان سب کا فارسی ار عربی سے گہرا رشتہ تھا۔اس کے برعکس دوسری زبانیں برج،اودہی،مرہٹی،بنگالی، اور جدید ہندہی وغیرہ پسی یا نادری رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں۔


متعصب ہندوؤں نے دائیں سے بائیں لکھی جانے والی زبانوں کو مسلمانوں کی زبانیں قرارار دے کر جدید ہندی کی اشاعت کو اپنا سماجی فریضہ بنا لیا۔” سرسید احمد خان نے کہا کہ اب ہندو اور مسلمان قومیں ہندستان میں مل کر نہیں رہ سکتیں۔یہیں سے دوقو می نظریہ،قوم، قومیت ، متحدہ قومیٹ،ہندو قومیت پر بحث کا آغاز ہوا۔“مسلمانوں کے دور میں حکومت کی زبان فارسی تھی۔

انگریز نے مسلم دشمنی میں شعبدہ بازی سے پہلے فارسی کی جگہ اُردو کو سرکاری زبان بنایا۔جبکہ میکالے کے مطابق” تعلیم انگریزی میں کر کے ایسا طبقہ پیدا کرنا،جوخون و رنگ کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق، فکرونظر اور اخلاقی حکمت و دانش کے اعتبارسے انگریز ہو“۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ مسلمان بنیادی طور پر ہماری مخالف ہے۔اس لیے ہمیں ہم ہندوؤں کو اپنا طرف دار بنائیں۔

اے ڈبلو ڈبلو ہنٹر نے ۱۸۷۰ء میں لکھا۔”مسلمان ہمیشہ انگریز کے لیے خطرہ رہے۔وہ ہمارے طریقے سے بلکل الگ تھلگ ہیں“۔ ان ہی وجوہات سے بلا آخر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان کو پستی کے سمندر میں دبا دیا گیا۔ مسلمانوں کے مخالف ہنٹر کو بھی کہانا پڑا کہ” مسلمانوں کے ساتھ سخت نا انصافی کی جارہی ہے“ مشہور کالمسٹ، تخلیقی شاعر، صحافی اور دانشور یوسف راہی چاٹگامی نے اپنے دو مضمونوں میں قائد اعظم  کی تقریروں کا حوالہ دے کر ثابت کیا کہ قائد اعظم نے پاکستان اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لیے حاصل کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ” لینن اور اتاترک نے لڑائی اور فوج کی قوت سے انقلاب پرپاکیا۔ مگر قائد اعظم نے دلیل کی بنیاد پر ایسی قوم کی تشکیل کی کہ دنیا حیرت میں رہ گئی۔ہندوستان کے مسلمانوں کو دینی گروہ کی حیثیت سے نکال کر ایک قد آور طاقت ور، علیحدہ مسلم قوم کے لیے ریاست حاصل کی“ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ” آزادی کی اس سال گرہ پر ہمیں چاہیے کہ ہم خدائے ذول لجلال کے حضور سجدی ریزہو کر یہ عید کریں ہم پاکستان کے آئین پر شریعت کی بالا دستی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔

لاکھوں جانیں جو پاکستان کے لیے کام آئیں اُن کی روحین ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گی۔
صاحبو! ”قائد اعظم․․․ایک مطالعہ کتاب“ قائد اعظم کی ساری زندگی کا احاطہ کر تی ہے۔ اسے راحیل پبلی کیشنز ردو بازار کراچی نے بہترین انداز میں شائع کر کے قائداعظم  کو پڑھنے والوں کے لیے ایک ہی جلد میں قائد اعظم  کی زندگی کے سارے پہلو اُجاگر کر دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قائد اعظم  کوکروٹ کروٹ سکون نصیب فرمائے۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :