
مکڑی کا جالا
پیر 10 فروری 2020

محمد فیصل
(جاری ہے)
ہاتھی، ہاتھیوں کے ساتھ اور لومڑی، لومڑیوں کے ساتھ لیکن انسانی معاشرت عدل و انصاف پر مبنی ہوتی ہے اور یہی کسی معاشرت کی بقاء کا سبب ہو سکتا ہے۔
جن معاشروں میں عدل و انصاف نہ ہو وہ معاشرہ کہلاتے کیسے ہیں؟ یہی مثال انسان کی ہے اگر اسے دنیا میں بغیر کسی قاعدے اور قانون کے رہنے دیا جائے تو یہ دنیا کی زندگی ایک جنگلی زندگی میں بدل جائے گی اور اگر اسے کسی قاعدے اور قانون کا پابند بنایا جائے تو دنیا کی یہی زندگی امن وامان کا گہوارا بن جائے گی۔انسانی زندگی میں انہی قواعد و ضوابط کو قانون کہا جاتا ہے، جو انسانی زندگی کی حفاظت اور معاشرے کی بقاء کا ضامن ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہماری اس انسانی زندگی کے امن وامان کو تباہ کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ انکی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ایسے تمام قوانین ختم ہونے چاہیں جو انکے نفس کو گراں گزرتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی مذہب کا انکار کرتے ہیں تو کبھی قانون کا، پھر اپنے انکار کو عقلمندی و دانشمندی کی چادر پہنانے کے لئے مختلف حیلے بہانے ڈھونڈے میں لگے رہتے ہیں، جہاں اعتراض کی گنجائش نہیں بنتی تو دور کی کوڑیاں لاتے ہیں، کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف قانون سازی کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد فواد چوہدری، شیریں مزاری اور پاکستان پیپلز پارٹی کی پرزور مخالفت کے باوجود پاس ہوئی تو وزیر قانون بھی میدان میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ قرارداد تو منظور ہو گئی مگر ایسا کوئی قانون نہیں بننے دوں گا. حال ہی میں جب زینب زیادتی و قتل کیس سامنے آیا تو اسی قسم کے ممبران قومی اسمبلی ٹالک شوز اور میڈیا میں بیانات دیتے ہوئے نظر آتے تھے کہ مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے۔ جب سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ ہائی لائٹ ہونا شروع ہوئے ہیں تو سب نے وقتی طور پر مسئلے کا ایک ہی حل ڈھونڈا تھا کہ مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکا دو، دراصل ہمارے ہاں سوچنے سمجھنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے، اس لئے جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اس کے فوری تدارک کے کیلئے مار دو، کاٹ دو، لٹکا دو جیسی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں مگر مناسب قانون سازی نہیں کی جاتی اور اب جبکہ قانون سازی کے لیے موثر قدم اٹھایا گیا تو اسی قبیل کے چند لوگوں کے اعتراضات بھی سامنے آ گئے۔ ہمارے یہاں انسانوں کے قانون کا حال بھی جنگل جیسا ہے اس میں بھی صرف طاقت، سرمایہ اور تعداد کو دیکھا جاتا ہے۔ غریب اور کمزور کے لیے اپنا حق مانگنا اور حق حاصل کرنا جنگل کے قانون کی طرح ہے اس لیے یہاں پر بھی خود کو محفوظ بنانے، اپنا حق حاصل کرنے کے لیے یہاں کے شہریوں کو اپنا جتھا بنانے کی ضررت ہوتی ہے.
یہ طاقتور جتھے اپنی مرضی اور من مانی کے قائل ہیں۔ جنگل میں جانوروں کے جتھے نسلی تعلق سے بنتے ہیں اور ملک خداداد میں یہ جتھے قبائل کے نام پر، برادری کے نام پر، سیاسی پارٹیوں کے نام پر، ہم پیشہ لوگوں یعنی ڈاکٹروں، وکیلوں، تاجروں یا مل مالکان کے نام پر، یا پھر ڈیپارٹمنٹ کے نام پر بنتے ہیں. مقصد دونوں جتھوں کا ایک ہی ہے کہ اپنے آپ کو نقصان سے بچانا، اپنی زندگی، اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنی من مانی۔ ان جتھوں سے بچنے اور ان کو کمزور کرنے کا طریقہ ہے اور وہ طریقہ ہے اس کمہار کے حکم کی طرح چور کا ہاتھ اور چور کی سفارش کرنے والے وزیر کی زبان کاٹ دی جا? یعنی قانون کا اطلاق، قانون کی عملداری اور قانون کی بالا دستی، اور ایسا قانون جو طاقتور کے لیے مکڑی کا جالا ثابت نہ ہو. قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ مروجہ نظام سیاست کے ہی پرزے ہیں۔ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اس سرزمین کو جنگل نہ بننے دیں کیونکہ ہم اپنے بچوں کو بتا رہے ہیں کہ
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد فیصل کے کالمز
-
غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ کب رکے گا؟
اتوار 13 فروری 2022
-
ہم کون سا نظام چاہتے ہیں ؟
بدھ 26 جنوری 2022
-
بلدیاتی قوانین پر احتجاج کیا رنگ لائے گا؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
رحمت اللعالمین کے ظالم امتی
منگل 7 دسمبر 2021
-
محسن پاکستان
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
عوام کیا چاہتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
''1971تمہارا آخری چانس تھا''
پیر 9 اگست 2021
-
حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی
پیر 10 مئی 2021
محمد فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.