مکڑی کا جالا

پیر 10 فروری 2020

Mohammad Faisal

محمد فیصل

درخت جنگل میں بھی اگتے ہیں اور باغ میں بھی، لیکن جنگل میں جانے سے انسان ڈرتا ہے اور باغ میں جانے کو جی للچاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگل کی کوئی دیکھ بھال نہیں کرتا لیکن باغات کی دیکھ بھال کی جاتی ہے چنانچہ جنگل میں درخت بغیر کسی ترتیب اور قاعدے کے اگ جاتے ہیں جب کہ باغ میں درخت ترتیب، قاعدے اور قانون سے لگائے جاتے ہیں، جنگل میں خوف کی وجہ یہ بھی ہے کہ نجانے کس درخت کی کھوہ سے سانپ نکل آئے، نجانے کس بل سے بچھو یا کوئی اور موذی جاندار نکل آئے لیکن باغات کے سبزے پر انسان بے خوف و خطر آرام سے جا بیٹھتا ہے۔

جنگلی قوانین کے بارے بھی آپ جانتے ہیں کہ طاقتور اپنی مرضی کا مالک بلکہ جنگل کا ہی مالک ہوتا ہے اور طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف جانور اپنے ہم نسلوں کے ساتھ جتھے بنا کر رہتے ہیں، بیل، بیلوں کے ساتھ۔

(جاری ہے)

ہاتھی، ہاتھیوں کے ساتھ اور لومڑی، لومڑیوں کے ساتھ لیکن انسانی معاشرت عدل و انصاف پر مبنی ہوتی ہے اور یہی کسی معاشرت کی بقاء کا سبب ہو سکتا ہے۔

جن معاشروں میں عدل و انصاف نہ ہو وہ معاشرہ کہلاتے کیسے ہیں؟ یہی مثال انسان کی ہے اگر اسے دنیا میں بغیر کسی قاعدے اور قانون کے رہنے دیا جائے تو یہ دنیا کی زندگی ایک جنگلی زندگی میں بدل جائے گی اور اگر اسے کسی قاعدے اور قانون کا پابند بنایا جائے تو دنیا کی یہی زندگی امن وامان کا گہوارا بن جائے گی۔
انسانی زندگی میں انہی قواعد و ضوابط کو قانون کہا جاتا ہے، جو انسانی زندگی کی حفاظت اور معاشرے کی بقاء کا ضامن ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہماری اس انسانی زندگی کے امن وامان کو تباہ کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

انکی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ایسے تمام قوانین ختم ہونے چاہیں جو انکے نفس کو گراں گزرتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی مذہب کا انکار کرتے ہیں تو کبھی قانون کا، پھر اپنے انکار کو عقلمندی و دانشمندی کی چادر پہنانے کے لئے مختلف حیلے بہانے ڈھونڈے میں لگے رہتے ہیں، جہاں اعتراض کی گنجائش نہیں بنتی تو دور کی کوڑیاں لاتے ہیں، کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف قانون سازی کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد فواد چوہدری، شیریں مزاری اور پاکستان پیپلز پارٹی کی پرزور مخالفت کے باوجود پاس ہوئی تو وزیر قانون بھی میدان میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ قرارداد تو منظور ہو گئی مگر ایسا کوئی قانون نہیں بننے دوں گا. حال ہی میں جب زینب زیادتی و قتل کیس سامنے آیا تو اسی قسم کے ممبران قومی اسمبلی ٹالک شوز اور میڈیا میں بیانات دیتے ہوئے نظر آتے تھے کہ مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے۔

جب سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ ہائی لائٹ ہونا شروع ہوئے ہیں تو سب نے وقتی طور پر مسئلے کا ایک ہی حل ڈھونڈا تھا کہ مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکا دو، دراصل ہمارے ہاں سوچنے سمجھنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے، اس لئے جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اس کے فوری تدارک کے کیلئے مار دو، کاٹ دو، لٹکا دو جیسی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں مگر مناسب قانون سازی نہیں کی جاتی اور اب جبکہ قانون سازی کے لیے موثر قدم اٹھایا گیا تو اسی قبیل کے چند لوگوں کے اعتراضات بھی سامنے آ گئے۔

ہمارے یہاں انسانوں کے قانون کا حال بھی جنگل جیسا ہے اس میں بھی صرف طاقت، سرمایہ اور تعداد کو دیکھا جاتا ہے۔ غریب اور کمزور کے لیے اپنا حق مانگنا اور حق حاصل کرنا جنگل کے قانون کی طرح ہے اس لیے یہاں پر بھی خود کو محفوظ بنانے، اپنا حق حاصل کرنے کے لیے یہاں کے شہریوں کو اپنا جتھا بنانے کی ضررت ہوتی ہے.
یہ طاقتور جتھے اپنی مرضی اور من مانی کے قائل ہیں۔

جنگل میں جانوروں کے جتھے نسلی تعلق سے بنتے ہیں اور ملک خداداد میں یہ جتھے قبائل کے نام پر، برادری کے نام پر، سیاسی پارٹیوں کے نام پر، ہم پیشہ لوگوں یعنی ڈاکٹروں، وکیلوں، تاجروں یا مل مالکان کے نام پر، یا پھر ڈیپارٹمنٹ کے نام پر بنتے ہیں. مقصد دونوں جتھوں کا ایک ہی ہے کہ اپنے آپ کو نقصان سے بچانا، اپنی زندگی، اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنی من مانی۔

ان جتھوں سے بچنے اور ان کو کمزور کرنے کا طریقہ ہے اور وہ طریقہ ہے اس کمہار کے حکم کی طرح چور کا ہاتھ اور چور کی سفارش کرنے والے وزیر کی زبان کاٹ دی جا? یعنی قانون کا اطلاق، قانون کی عملداری اور قانون کی بالا دستی، اور ایسا قانون جو طاقتور کے لیے مکڑی کا جالا ثابت نہ ہو. قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ مروجہ نظام سیاست کے ہی پرزے ہیں۔ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اس سرزمین کو جنگل نہ بننے دیں کیونکہ ہم اپنے بچوں کو بتا رہے ہیں کہ
''یہ چمن تمہارا ہے تم ہو باغباں اس کے''

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :