قومی احتساب بیورو(نیب)

بدھ 29 جولائی 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

قومی احتساب بیورو ایک ہزار نو صد ستانوے (۱۹۹۷)یعنی ا ب سے تئیس سال قبل محترم محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کی حکومت نے احتساب سیل کے نام سے بنایاتھا ۔ دو سال بعد جنرل پرویز مشرف صاحب نے اس کو قومی احتساب بیورو میں تبدیل کر دیا اور اس کے پہلے سربراہ نیول کموڈور ذکااللہ صاحب تھے جو کہ دو ہزار تین (۲۰۰۳)تک رہے ۔ یہ ادارہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف جہاد کے طور پر شروع کیا گیا تھا ۔

اس ادارے کے دائرہ کا رمیں مالی بدانتظامی ، دہشت گردی او ر نجی شعبے، سرکاری شعبے، دفاعی شعبے اور کارپوریٹ سکٹرز میں بدعنوانی کے متعلق تحقیقات کا آغاز کر نا تفتیش کر نا اورمشتبہ افراد کی گرفتاری کے لئے ورنٹ گرفتاری جاری کر نے کی منظوری دینا شامل ہیں ۔یہ ادارہ اپنی تحقیق اور تفتیش کی روشنی میں مقدمات احتساب عدالت میں ارسال کر تاہے اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں جبکہ صوبائی دفاتر صوبائی دار لحکومتوں میں قائم ہیں اس ادار ے کا سربراہ چیئرمین کہلاتا ہے جس کی مدت ملازمت چار سال کے لئے ہو تی ہے ۔

(جاری ہے)

اس وقت نیب کے سربراہ محترم جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب ہیں ان کی تعیناتی گیارہ اکتوبر دوہزار سترہ(۲۰۱۷) میں ہوئی اور اکتوبر دوہزار اکیس (۲۰۲۱)تک اس پوسٹ پر کام کریں گے۔
نیب کے پاس دوہزار گیارہ (۲۰۱۱)میں ۱۷۹۱ کیس تھے ان میں سے ۱۰۹۳ پر فیصلہ ہو چکا ہے اب بھی تقریباً ۱۵۵۰ کیسزموجود ہیں ان میں سے پچیس یا تیس مقدمات بڑے لوگوں یعنی پارلیمنٹیرین کے ہو گے باقی عام لوگوں کے کیسز ہیں ۔

بڑے لوگ وہ ہیں جو بڑے وڈیرے ہیں ان لوگوں کے ہاں د س ،بیس ارب کی ہیرا پھیری کوئی معنی نہیں رکھتی یہی لوگ اب شور مچا رہے ہیں کہ اس ادارے کو ہی ختم ہوجانا چاہے اور یہ چاہتے ہیں کہ چوروں کا احتساب بڑے چور ہی کریں ۔ ان بڑے لوگوں پر اس حکومت نے تو اب تک کوئی کیس نہیں بنایا ۔ زرداری صاحب پر جو کیسز ہیں وہ ۱۹۹۹ میں نواز شریف صاحب نے بنائے تھے ۔

نواز شریف صاحب پر ان کی اپنی حکومت میں پانامہ کے ذریعے بنے ۔ اس حکومت نے ان سب کیسزکو نیب میں سپیڈاپ کر نے کا کہا ہے کیونکہ اس حکومت سے پہلے دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے کیسز کھولنے کے حق میں نہیں تھیں یہ چاہتے تھے کہ ہم بھی کھائیں اور تم بھی کھاؤ ان کے خیال میں یتسری پارٹی کوحکومت میں آنے اور حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔ ان دونوں پارٹیوں نے اپنے حساب میں تیسری پارٹی کو حکومت میں آنے کا کبھی سوچابھی نہیں تھامگو اب وہ آگئے ہیں ہیں اور ان کا منشور ہی انصاف اور احتساب ہے ۔


 نیب قوانین میں ترمیم کا کہ رہے ہیں ۔ ترمیم ہونی چاہیے مگر ایسی نہیں جو اپوزیشن والے کہ رہے ہیں ۔ ترمیم میں ہو نا چاہیے نیب مکمل ثبوت کے ساتھ مقدمہ بنا کر پیش کرے اور جو مقدمہ سننے کے لئے آئے وہ ایک ہی دفعہ سارے ثبوت لے کر آ ئے اگر ثبوت نہ لا سکے توفوراً سزا سنا دی جائے اور سزا بھی سخت ہو نی چاہیے جو سزا چور کی ہے وہ ہو نی چاہیے جیسے عام آدمی کے ساتھ ہوتا ہے عام آدمی پر مقدمہ بنتا ہے نیب گرفتار کرتی ہے اورپیشی کے بعد ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیتی ہے پولیس اس سے جو نہیں بھی کیا ہوتا وہ بھی منا لیتی ہے قانون سب کے لئے برابر ہو نا چاہیے ۔

پیشی پر سب کو ایک جیسا جا نا چاہیے یہ نہیں کہ بڑا وڈیرہ پیشی کے لئے آے تو اس کے ساتھ سو یادوسو اس کو ہمایتی چور بھی آئیں اگر چور کی حمایت میں اس کے ساتھ کوئی آجائے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو نا چاہیے جو عام چور کے ساتھ ہوتا ہے چور چھٹا ہو یا بڑا سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :