کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کورونا وائرس

جمعہ 19 جون 2020

Mohammad Iqbal

محمد اقبال

آبادی کے لحاظ سے سندھ مملکتِ خداداد پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ دنیا کا آٹھواں بڑا شہر یعنی کراچی بھی اسی صوبہ کا حصہ ہے۔ کراچی کو پاکستان کا اکانومی انجن (Economic Engine) بھی کہا جاتا ہے ہے. مگر اس شہر کے لوگ آج بھی کوالٹی ہاؤسنگ کے لئے دربدر ہیں۔ تقریبا 800 کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹز اس شہر میں غریب اور مڈل کلاس لوگوں کے نام پر بنائی گئیں، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صرف چند ایک ہی نے لوگوں کو ڈلیور کیا۔


کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے کلچر کو سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بہت پروموٹ کیا تھا، لیکن دکھی دل سے یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس طرف بہت کم توجہ دی اور آج کرپشن ایک ناسور بن چکی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قوانین پر عمل نہ کرنا اور ریگولیٹر یعنی کوآپریٹیو ڈیپارٹمنٹ کا سختی سے قوانین پر عمل نہ کروانا ہے۔

(جاری ہے)

سوسائٹی ایکٹ میں شفافیت کے نام پر قوانین میں کئی تبدیلیاں تو کی گئیں مگر شفافیت تو نہ آ سکی مگر کرپشن کا ناسور کرونا وائرس کی طرح مزید بڑھتا ہی گیا۔ پچھلے بیس سالوں میں اس ناسور (کرونا وائرس) نے  کوآپریٹیو سوسائٹیز کو بری طرح جکڑ لیا ہے اور یہ وائرس اسٹیٹ ایجنٹ و بروکرز مافیا ہے، جو کہ بہت تیزی سے صوبے کی سوسائٹیز میں پھیل رہا ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن سوسائٹی کی مینجمنٹ میں حصہ لینا یا اثر رسوخ استعمال کرنا مفادات کا تصادم (Conflict of Interest) کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان کے قوانین میں بھی اس کی ممانعت ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہمارے ادارے صرف کوآپریٹیو قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرادیں تو ہماری سوسائٹیز, کراچی کی عوام اور صوبے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔


1970میں اسکیم33 کراچی میں کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جال بچھایا گیا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی پچاس سال گزرنے کے باوجود ہزاروں لوگ اپنی جمع پونجی کے عوض اپنے پلاٹ کا قبضہ لینے سے قاصر ہیں۔
کراچی کی کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں جس بے دردی سے لوٹ مار کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ زیادہ تر کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کو کچھ مخصوص افراد چلا رہے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک فیملی بزنس بن گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اسکیم 33 کے بعد کراچی کی دیگر سوسائٹیز میں تیزی سے پھیلتے اس کرونا وائرس سے عوام اور بالخصوص سوسائٹی ممبران کی پریشانیوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کیونکہ روزانہ درجنوں افراد اس موذی مرض کی وجہ سے اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں روپے کے عوض صرف کاغذ کے چند ٹکڑے ہی ان کے ہاتھ میں آتے ہیں۔


کراچی کی اسکیم33 پروجیکٹ کی ناقص صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوسائیٹیز پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرکے اپنے من پسند افراد میں زمینیں تقسیم کردی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوآپریٹیو سوسائٹی کو اس کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سے پسماندہ صوبے اور عوام اس موذی وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔


کرپشن کے اس کرونا وائرس کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ سوسائٹی کی مینجمنٹ میں آنے والے لوگوں کی اسکریننگ کا میکانزم تیار کیا جائے۔ حکومت ایک ایسا میکنزم تیار کرے کہ یہ وائرس کسی بھی راستے سے سوسائٹی میں داخل نہ ہوسکے۔
میکنیزم میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے۔
1)  کمیٹی کے ممبران کی کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویشن ہو۔


2) پراپرٹی سے متعلق کوئی کاروبار نہ رکھتا ہو (Conflict of Interest)۔
3) قوانین پر عمل نہ کرنے والی منیجمنٹ کو بلیک لسٹ کرنا۔
4) سوسائٹی ممبران کو انفارمیشن تک رسائی دینا۔
5) تمام پراسیس کو کمپیوٹرائز کرنا۔
دوسری بات اس وائرس کی تشخیص کیلئے اداروں مثلاً Co-operative Department، Anti Corruption، FIA ،NAB، SBCA کو مخصوص اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ایسا کردار جس میں عوام کو نظر آئے کہ ادارے کوآپریٹیو کلچر کو سپورٹ کرتے ہیں اور قبضہ مافیا کے لیے لیے زیرو ٹالرنس (Zero Tolerance) پالیسی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :