لوگوں کو سیاسی راہنمائی نہیں اپنی ضرورتیں چاہئیں

پیر 14 دسمبر 2020

Mohammad Irfan Chandio

محمد عرفان چانڈیو

خیبرپختونخوا کے ایک گائوں کلاچی  جو کہ مشکل سے تین سو یا چار سو گھر پر مشتمل تھا جہاں  پینے کے لیے صاف پانی کی کوئی سہولت مہیا نہیں تھی زمین بھی جو پانی دیتی وہ پینے کے قابل نہ ہوتا تو آسمان سے آنے والے پانی سے ہی گائوں کے لوگ اپنا گزر بسر کرتے تھے مگر اکثر اوقات آسمان سے پانی آنے میں تغیر ہو جاتی تو گائوں کے لوگ گائوں کے سرداروں کے گھر کی جانب رخ کرتے گائوں میں دو سردار تھے سردار رفاقت اور سردار اللہ نواز ، دونوں میں سیاست کی وجہ سے کبھی نہیں بن پائی گائوں کے لوگ بھی جہاں سے اُن کی پانی کی ضرورت پوری ہونے کی امید ہوتی اُس گھر کے سامنے اجتماع کی شکل میں جمع ہو جاتے اور سردار صاحب زندہ باد کے نعرے لگاتے، پانی کی ضرورت پوری ہو یا نہ ہو مگر دونوں سردار لوگوں کے سامنے خیالات کا وہ خوبصورت پل باندھتے کہ لوگ کچھ دن ان خیالات کے سہارے ہی گزار لیتے اور پھر اُسی ترتیب سے پانی ختم ہوجانے پر لوگ سرداروں کے گھر کا رخ کرتے ہیں یہ ساری قیاس ارائی کرنے کا میرا مقصد ملک کے موجودہ حکومت کے خلاف جلسہ و جلوس ہیں، 2014 سے لے کر 2018 تک پی ٹی آئی ملک کے مختلف صوبوں میں جلسے اور دھرنے دیتی ہوئی نظر آئی تھی جہاں پر ہزاروں لوگوں نے گائوں کے لوگوں کی طرح  عمران خان زندہ باد کے نعرہ بھی لگائے تھے اور  28 ستمبر 2014 میں پی ٹی آئی کے لاہور کے جلسے میں لوگوں کا سمندر دیکھنے کو ملا جس میں عمران خان صاحب، نواز شریف کے استعفیٰ کا مطلبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور لوگوں کے سامنے خیالات کے وہ خوبصورت پل بندھے کہ لوگ کچھ وقت کے لیے سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ شاید اب یہ ملک پہلے جیسا نہ رہے گا مگر نواز شریف نے عمران خان کے جلسوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے 5 سال پورے کیے  لیکن عمران خان صاب کو جلسوں کا فائدہ ہوا اور وہ اگلی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔

(جاری ہے)

ٹھیک 6 سال بعد نوازشریف صاحب کی بیٹی وہی مطالبہ عمران خان صاحب سے کر رہی ہیں اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے بھی ہو رہے ہیں اور ٹھیک گائوں کے لوگوں کی طرح نواز شریف کے جلسوں میں لوگوں کا ایک سمندر نظر آتا ہے جو کہ عمران خان کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نواز شریف صاحب کے حق میں ۔ ایک صاحب سے یوں ہی بحث مباحثہ ہو رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے جلسے میں لوگوں کی تعداد بتا رہی ہے کہ اگلی حکومت نواز شریف صاحب کی ہو سکتی ہے اگلی حکومت کسی کی بھی ہو مگر شرکاء کی تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ ضرورت مند ہیں اُن کی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں وہ آج بھی کسی نہ کسی ایسے سیاست دان کی تلاش میں ضرور ہیں جو اُن کی ضروریات کو پورا کر سکے۔

پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا ملک ہے جس کی آبادی میں 63 فیصد لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں دنیا میں ایسے بہت کم ممالک ہیں جہاں جوان لوگ اکثریت میں پائے جاتے ہوں اور وہ ملک ترقی نہ کر رہا ہو پاکستان میں بےروزگاری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے پڑھے لکھے اور ڈگری ہولڈرز کی بے روزگاری کی شرح عام لوگوں کی نسبت 3 گنا زیادہ ہے  بے روزگار افراد میں اکثر نوجوان ہیں جن کی اوسط عمر 25 سے 30 سال کے درمیان ہے یہ سب لوگوں کی ضروریات ہیں جلسوں میں شرکاء کا ہجوم کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اُن کو عمران خان سے کوئی ذاتی دشمنی ہے یا پھر وہ نواز شریف یا بلاول صاحب کے حامی ہیں بس شرکاء صرف ضرورت مند ہیں 72 سالوں کے اس عرصے محشر میں کئی سیاسی رہنما آئے جنہوں نے لوگوں سے ان کی ضروریات پوری کرنے کے وعدوں کو ایک خوبصورت مالا میں چن کر ان کے سامنے پیش کیا مگر یہ ضروریات نہ پوری ہوئی نہ جلوس میں شرکاء میں کمی آئی۔

آج پھر قوم اسی دلدل میں پھنسے کیلئے پھر تیار ہے۔پس خدا سے دعا ہے کہ اب سہی مگر ضرورتیں پوری تو ہوں۔ کیونکہ  لوگوں کو سیاسی رہنما سے نہیں اپنی ضرورتوں سے مطلب ہے ۔ کوئی تو  آے بسم اللہُ تو کرے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :