لاہور پولیس اور قبضہ گروپ

پیر 14 جون 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

لاہور ملک کا دوسرا بڑا شہر اور دل کہلاتا ہے،لاہورئیے ہمیشہ سے اپنی زندہ دلی کے باعث معروف رہے  ہیں، جس کی  وجہ سے انہیں زندہ دلان لاہور  کہا جاتا ہے ، ہر موقع سے کوئی خوشی یا مل بیٹھنے کی تقریب بپا کرنا ان کاخاصہ  ہے، میلے ٹھیلے  اور تہوار منانا ان پر ختم ،بسنت کا تہوار تو پوری دنیا میں  لاہور  کی پہچان بن گیا تھا مگر  جب    ڈور سے  زندگی کی پتنگیں کٹنے لگیں تو اس پر پابندی ہی بھلی لگی۔

    اگر چہ معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب لاہوریوں  کا مزاج بھی بڑی حد تک تبدیل ہو چکا ہے ،اس کے باوجود لاہویوں کی تفنن طبع ملک بھر میں امتیازی ہے،مظلوم کا ساتھ دینا بھی لاہوریوں کا وطیرہ رہا مگر سماجی تبدیلیوں کے بعد ان کا رویہ بھی تبدیل ہواء اور اب صورتحال یہ ہے کہ حق ہونے کے باوجود کوئی کسی غریب کے حق میں گواہی دینے کو آمادہ نہیں ہوتا،سیاسی تقسیم نے بھی لاہور کے مزاج پر اثر ڈالا،اب اپنی پارٹی کے کسی رہنماء یا کارکن کی طرف سے غیر قانونی کام کی بھی حمائت کی جاتی ہے،سیاسی مداخلت ہی کی وجہ سے اکثر  ضلعی اور پولیس افسر بھی ایسے واقعات سے دور رہنے کو ہی ترجیح دیتے رہے،جس کی وجہ سے یہاں  قبضہ گروپوں کو شہ ملی اور بات اتنی بڑھی کہ یہ وزیر اعظم عمران خان تک پہنچ گئی۔

(جاری ہے)


سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی  جب لاہور میں قبضہ گروپوں کیخلاف ازخود نوٹس لیا تو بڑے بڑے نام سامنے آئے اور ان کے حکم پر سیکڑوں شہریوں کو ان کی جائیداد اراضی پلاٹ واگزار کرا کے حوالے کئے گئے،حال ہی میں ایک پولیس افسر کے شہری کے پلاٹ پر قبضہ کا کیس لاہور ہائیکورٹ میں سامنے آیا جس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پولیس افسر کو سزا دینے کا  اعلان  فیصلہ سے پہلے ہی اعلان کر دیا، جس کا مطلب ہے کہ عدالت اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ پولیس افسر قبضہ میں ملوث ہے۔

میں یہ  پڑھ کر سوچ میں پڑھ گیا۔پولیس جس کا کام مظلوم کو تحفظ دینا ،اسکی جان اور املاک کی حفاظت ہے،کیا وہ  خود ہی  قبضہ گروپوں سے مل چکی ہے؟
 
میں  لاہور پولیس کے سربراہ  غلام محمود ڈوگر کو جانتا ہوں ،وہ بڑے سلجھے ہوئے افسر ہیں،امریکہ میں پڑھے ہیں ،کچھ عرصہ کینیڈ ابھی رہے  مگر اپنے وطن اور اسکی  مٹی کا پیار انہیں واپس پاکستان کھینچ  لایا  اور اب وہ  یہاں افسری کے  نشے میں رہنے کی بجائے  ایک عام آدمی کی طرح  رہتے ہوئے  یہاں  کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔

ایک طرف  ،وہ  مجھے  روایتی پولیس افسر کی بجائے  جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق پولیسنگ کرتے نظر  آتے ہیں  تو دوسری طرف  انہیں پنجاب کے کلچر اور رہتل کا بھی خوب اندازہ ہے جسکی وجہ سے وہ  درخواست باز ،بلیک میلر  مافیا  اور حقیقی سائلوں کو بھی پہچان لیتے ہیں۔مجھے انکی ایک بات  اور بہت پسند آئی ،وہ انکا
 سائلوں  سے میٹھے ،نرم  اور دھیمے انداز میں بات کرنا  ہے۔

گزشتہ  دنوں انکی  دعوت پر  ان کے ساتھ  چائے اور گپ شپ  کے لئے ان کے دفتر گیا   تو  انہیں عام لوگوں کے مسائل سنتے ہوئے  میں  سوچ رہا تھا کہ ایک افسر اور وہ بھی پولیس  افسر اگر لوگوں سے نرم لہجے میں بات کر لے ،انکی  سن لے تو  سائل کی آدھی داد رسی تو یہاں ہی ہو جاتی ہے۔اگر تھانوں میں عام لوگوں کے ساتھ  پولیس والوں کا  صرف رویہ اچھا  ہو جائے  تو تھانہ کلچر بہتر ہو سکتا ہے ،اس میں  اعلیٰ پولیس افسروں  کو حکومتی اقدامات کے بجائے اپنے طور پر اقدامات اٹھانے ہوں گے کیونکہ میٹھا بولنے اور لوگوں  کی بات سننے  میں تو فنڈز کی ضرورت نہیں ہوتی۔


 
    جہاں تک  قبضہ مافیا کی بات ہے تو لگتا ہے کہ لاہور پولیس کو اس وقت سب سے بڑا  یہی چیلنج درپیش ہے،  کوئی مانے نہ مانے سابق ادوار میں قبضہ  گروپوں کیخلاف دانستہ قوانین  اور رویے  بھی  نرم رکھے گئے،جیسے تیسے قوانین تھے ان پر عملد رآمد بھی نہ ہونے دیا گیا، سول مقدمات میں ماتحت عدلیہ کی کارروائی بھی بوجوہ سست رہی اور اس حوالے سے کسی حکومت نے بھی معاملات کو سہل بنانے کی کوشش نہ کی،جس کے نتیجے میں قبضہ گروپوں کیخلاف مقدمات سالہا سال زیر سماعت رہنے کے باوجود فیصلہ سے محروم رہے،اس سلسلہ میں محکمہ مال کے افسروں کا رویہ بھی خاصا مشکوک اور قابل اعتراض رہا،اور آج بھی ہے،ورنہ ان کا تعاون نہ ہو تو سرکاری یا نجی اراضی پر قبضہ کرنا ممکن ہی نہیں،سابق حکومت نے اس روائت کے خاتمہ کیلئے اراضی ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے کا پروگرام بنایا مگر اس میں بھی ایسی  غلطیاں ہیں کہ اب بھی انتقال یا فرد حاصل کرنے کیلئے پٹواری کی حاضری گواہی اور فیس کی ادائیگی ضروری ہے،کسی کے باپ کانام ،کسی کی اولاد کا نام   کمپیوٹر میں غلط  ڈالا گیا،رجسٹرار آفس میں آج سب سے زیادہ شکایات اسی حوالے سے ہیں۔


   اہم ترین بات یہ کہ قبضہ ہو گیا،واگزار بھی کرالیا گیا مگر جس سرکاری ملازم کی آشیر باد،تعاون،بے ضابطگی یا زبانی حکم سے یہ کارنامہ انجام دیا گیا اس کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے قبضہ کی روائت فروغ پاتی گئی،اب  بھی  اگر ان   ملازمین، جن کے دور میں بے ضابطگی ہوئی کیخلاف بھی کارروائی کی جائے تو ایسے واقعات میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔


     سی سی پی او لاہور ، غلام محمود ڈوگر ان دنوں قبضہ مافیا کے خلاف  سرگرم عمل ہیں ،انکی  سربراہی میں قبضہ گروپوں کیخلاف کریک ڈائون کے دوران 54ارب روپے مالیت کی چار ہزار239کنال اراضی واگزار کرا کے اصل مالکان کے حوالے کی گئی  ،اس حوالے سے   360شکایات تھیں جن پر کارروائی کی گئی اور حقدار کو ان کا حق دلایا،نجی ہائوسنگ سوسائیٹیوں کے 118متاثرین کو بھی انصاف دلاتے ہوئے ان کو سوسائیٹی مالکان سے ساڑھے آٹھ کروڑ روپے کی ڈوبی رقم واپس دلائی گئی،پولیس نے دوران کارروائی قبضہ گروپوں کے
 سات سو سے زائد کارندوں کو بھی گرفتار کیا،واضح رہے کہ رواں سال ہونے والی اس کارروائی سے پہلے لاہور پولیس کو چھ سے سات سو درخواستیں روزانہ موصول ہوتی تھیں مگر پولیس کے فعال ہونے کے بعد اس میں نمایاں کمی آئی ہے،لاہور پولیس کی یہ کارروائی اپنی جگہ قابل تحسین ہے ،سی سی پی او غلام محمود ڈوگر بھی تعریف کے مستحق ہیں جنہوں نے ہر قسم کے دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قانون کی حکمرانی قائم کی اور ظالم کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے متاثرین کو انصاف بہم پہنچایا،مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبضہ گروپوں کے حوصلے اتنے بلند کیسے ہوئے کہ وہ جب چاہے جس کی چاہے اراضی پر دھڑلے سے قبضہ کر لیتے ہیں؟ایک نیک نام اور اچھے پولیس افسر غلام محمود ڈوگر کو اس کا بھی جائیزہ لینا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :