دسمبر کی بجلیاں

منگل 24 دسمبر 2019

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

روشنیاں دنیا کی زینت مانی جاتی ہیں برقی آلات اب لوگوں میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ دنیا ویران سی لگتی ہے۔مثبت سائیڈ تو یہی ہے کہ برقی قمقموں کے بغیر اب زندگی اُجاڑ سی لگتی ہے۔ گرمی راتیں تو چاندی سی گزر جاتی ہیں لیکن جاڑے کی راتیں وہشت سے بھری ہوتی ہیں۔ ہاتھ دوسرے ہاتھ سے انجان ہوتا اس عالم میں انسان ایک تجرباتی دنیا کا باسی بنا پھرتا ہے۔

قدرت کے قمقموں کا حساب تو قدرت ہی جانے لیکن مصنوعی روشنیوں کے مالک تو حساب کے بڑے پکے ہیں۔ایک ایک پائی کے ساتھ ہاتھا پائی پہ اترے ہوئے ہیں۔
معاشرے کی تقسیم نے معاشرتی اصولوں کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔اپر طبقہ اور لوئر طبقاتی نظام میں اصلاحات لوئر کے حق کی ہو نی چاہئے۔ اخراجات اور آمدن کے کتابچے اپنی آمدن کے آگے ردی پیپر نہیں ہونے چاہئے۔

(جاری ہے)

دسمبر کے آنے پہ باغبانوں اور دلوں کے ہاتھوں مجبور لوگ اکثر اشعار اور تحائف کے مشاغل میں روتے دیکھے ہیں اب تو ان کے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے بجلی کے کچھ مضحکہ خیز لگ رہیں۔ یادداشت کمزور ہونے کو دیر نہیں لگتی۔
کچھ دو سال سے کم عرصہ پہلے ڈی چوک کے قمقموں میں برقی لفافوں کو ایسے جلایا گیا کہ جیسے ملکی نہیں ذاتی بل ہوتے ہیں۔تب بھی ایک بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ یہ صاحبان تو صاحب استطاعت ہیں جرمانے بھج ادا کر سکتے ہیں اگر میٹر کاٹ لیے جائیں گے بچاری وہ عوام جو اسی منافق اور دو پاکستان سے ایک پاکستان کی تکمیل میں شامل تھے وہ کہاں سے اپنے کنکشنز کا اجرا کروا سکتے تھے؟ کیاوہ بل پچھلے مہینوں کے تھے؟ یااکسانے کے لئے ادھار لئے گئے تھے؟ کوئی نہیں جانتا البتہ ایک نعرہ ضرور اٹھا کہ بجلی کے بل اگر زیادہ ہو جائیں تو سمجھ لینا کہ حکمران چور ہیں وہ لوٹ رہیں ہیں۔

تیل کی قیمتیں اگر بلوں میں لگنا شروع ہو جائیں تو سمجھ لینا حکمران چور ہیں ۔ان کی گونج سے فیصل آباد کے بڑے پیلر کو باہر ملک جانے پہ مجبور کر دیا۔
ابھی تو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ دسمبر نے حکمرانوں کے لئے تحائف اور اشعاروں کی لمبی قطار بنا ڈالی۔دسمبر کے آنے والے بجلی کے بلز میں فیول ایڈجسٹمنٹ نے ڈی چوک کے گھیراؤ اور بجلی جلاؤ بلز کی تھیوری کو جھٹلا کر رکھ دیا۔

مسجد اور مدارس کے بلز میں بھی تیل کا ٹیکس لگنے کے ساتھ عام آدمی کو 200 کے بل پہ 450 اور 1000 والے کو 700 سے زیادہ تیل کے خرچے اٹھانے پڑے۔کیا عوام پہلے سے ایسے ٹیکس ادا نہیں کر رہے؟ ماچس سے لے کر گھر تک کھانے سے لے کر قبر تک تو ٹیکس اداکیے جا رہے ہیں۔عام عوام کو لالے پڑے ہوئے ہیں کہ اتنے بلز ادا کریں یا کھانے کی اشیاء خورد پوری کریں!
فردوس صاحبہ اور فواد صاحب کے یہ جملے کانٹوں کی طرح چُبتے ہیں ان نادار لوگوں کو جن کی چھت بارش میں ڈبل بارش برسا رہی ہوتیں ہیں۔

تپتی دھوپ اور سردی کی راتیں ان کو اپنے ہی گھر سے نفرت پہ مجبور کر رہی ہوتیں ہیں۔ان کی مشکلات میں اضافہ تب ہوتا ہے جب آپ جیسا کوئی پڑھا لکھا کہلانے والا یہ بول دیتا ہے کہ اتنے سے ٹیکس سے کسی کی جان نہیں جائے گی۔ذرا ایک لمحے کے لئے سوچ لیں کہ
 غربت کو گزارنا مشکل نہیں غربت کا طعنہ سننا مشکل ہوتا ہے۔دن بھر کی تھکان کرسیوں پہ بیٹھ کر نہیں اینٹوں پتھروں اور تپتی دھوپ میں ننگے پاؤں مزدوری کرنے سے ہوتی ہے۔

ننھی خوشیاں بھی جشن کا سماں ہوتی ہیں۔آپ ان کی اس عزت کو بھی مجروح کر گزرتے ہیں۔ان عوام کے ٹیکسوں سے مہینے بھر کی تنخواہ اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں ٹھنڈے کمروں اور گرم لباسوں کے مزے اٹھاتے ہیں۔
جتنا غریب اپنی ایک بیٹی شادی خانہ آبادی پر خرچ کرتا ہے اُتنے میں آپ کی ویسٹ کوٹ اور پینٹ کوٹ آتا ہے۔اتار پھینکے گے کیا اس عوام کے لئے سادھی شخصیت میں آنے کے لئے نہیں کبھی نہیں؟تو زبانوں اور پالیسیوں کے عمل درآمد کے لئے بھی ان لوگوں کا خیال رکھیں ورنہ وقت کا چکر گھوم گیا تو زمانے آپ کی کہانیاں سنتے ہیں۔

لیکن ایصال ثواب کرتوتوں کے ہی پہنچتے ہیں۔قربانی عوام کی نہیں حکمران کی ہونی چاہیے۔مہنگائی اور ڈھڈائی میں شرم کا مقام بھی رکھ لیں شاید کچھ افاقہ ہو جائے۔غرض عوام ہو یہ سیاستی ڈرامے اور عالمی ہٹ دھرمیاں اپنی ذاتیات تک رکھیں ریاست کا مقام اور طرز معیشت عوام کی وجہ سے بلند ہوتے ہیں سیاست دان تو اس کا استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔وقت کو سنبھالیں۔۔۔ذاتیات کو نکالیں۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :