
دینی مدارس اور روز گار کا مسئلہ !۔ قسط نمبر1
بدھ 10 اکتوبر 2018

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
اب ہم آتے ہیں دینی مدارس کی طرف ،1982ء تک دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کی ڈگری حکومتی اور نجی اداروں میں قبول نہیں کی جاتی تھی ، یہ سب علماء فراغت کے بعد صرف مسجد اور مدرسے تک محدود ہوتے تھے ، آپ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ1982سے قبل ایک پرائمری پاس شخص تو خواندہ تسلیم کیا جاتا تھا لیکن مدرسے میں آٹھ سال پڑھنے اور درس نظامی کرنے والے عالم کوان پڑھ اور ناخواندہ شمارکیا جاتا تھا ۔مدارس کے طلباء کے ساتھ یہ ذیادتی کیوں کی جاتی رہی اورہمارے بڑے اس پر کیوں خاموش رہے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ آپ اس کو اپنے بڑوں کی سادگی کہیں یا کچھ اور نام دیں لیکن بہر حال یہ المیہ تھا جو دینی مدارس کے ہزاروں طلباء پر گزر چکا ۔1982میں کچھ اصحابِ درد نے اس صورتحال کو محسوس کیااورصدر ضیاء الحق کی توجہ اس جانب مبذول کروائی۔ انہوں نے صدر پاکستان سے مطالبہ کیا کہ مدارس کی سند کو ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے مساوی قراردیا جائے۔صدر نے یہ معاملہ یوجی سی ( Grants Commission University ) کو بھجوا دیا۔ یوجی سی نے مسئلے پر ورک شروع کیااور اس پرمشاورت اور غور وخوض کے لیے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور ماہرین ِ تعلیم کو اسلام آباد بلالیا ۔ مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء نے مدارس کی نمائندگی کی،طویل مشاورت کے بعد یو جی سی اور ماہرینِ تعلیم نے متفقہ طور پر یہ سفارش کی کہ دینی مدارس کی آخری سند کو ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے مساوی قرار دیاجائے۔ ماہرین کی سفارشات کی روشنی میں یوجی سی نے نوٹیفیکیشن نمبر80198CAD128مورخہ17نومبر1982ء جاری کرکے ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ حقیقت تسلیم کی کہ شہادة العالمیہ کی سند کو ایم اے اسلامیات اورعربی کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے۔
مدارس کی دنیا میں یہ ایک بڑی پیش رفت تھی ، ہزاروں طلباء کا مستقبل اور انہیں قوموں دھارے میں شامل کرنے کا یہ بہترین موقعہ تھا لیکن افسوس یہ موقعہ حقیقت کا روپ نہ دھار سکا اور امید کا یہ درخت حالات کی بے رخی کی نذر ہو گیا۔ بعد میں آنے والی حکومتوں ، پاکستان کے سرکاری اداروں اور بڑوں کی عدم دلچسپی اور حالات کے عدم ادارک کی وجہ سے یہ معاملہ پھر لٹک گیا ۔سرکاری اور نجی ادارے اپنی مرضی کرنے لگے، کسی جگہ ان اسناد کو قبول کر لیا جاتا اور کہیں رد کر دیا جاتا ، نواز شریف، مشرف اور زرداری دور میں یہ معاملہ بار بار ڈسکس ہوتا رہا لیکن ہر بار بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوجاتا۔بعد میں یہ معاملہ ایچ ای سی کے پاس چلا گیا ، فیصلہ ہوا کہ ایچ ای سی درس نظامی کی بنیاد پر معادلہ کی سند جاری کر گا اور یہ معادلہ ہر جگہ قابل قبول ہو گا۔معادلہ کی سند کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ،پہلے وفاق پھر آئی بی سی سی اور آخر میں ایچ ای سی،اچھی خاصی مت مارنے اورہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد آپ کو کاغذ کا ایک ٹکڑا تھما دیا جاتا ہے ،کاغذ کا یہ ٹکڑا حاصل کرنے کے بعد کچھ لوگ تو کافی خوش فہم ہوتے ہیں لیکن یہ ساری خوش فہمی اس وقت دور ہو جاتی ہے جب آپ کسی جگہ جاب یا مزیڈ سٹڈی کے لیے اپلائی کرتے ہیں ۔سرکاری اداروں میں اس کے ساتھ ریگولر بی اے کی شرط رکھی جاتی ہے اور پرائیویٹ ادا روں میں میرٹ اس سے بھی ذیادہ سخت ہوتا ہے ۔ ہر ادارے کی اپنی مرضی اور پالیسی ہوتی ہے ،انہیں ایچ ای سی کا نوٹیفیکیشن اور معادلہ کی سند دکھائی جائے تو کہا جاتا ہے یہ ہمارا معاملہ نہیںآ پ کورٹ میں جائیں۔ سال قبل پنجاب میں ایجوکیٹرز کی بھرتیاں آئی ، لوگوں نے معادلے کی بنیاد پر ایم اے اسلامیات کی پوسٹو ں پر اپلائی کیا ، ٹیسٹ کلیئر کرنے اور مہینوں انتظا رکے بعد جب میرٹ بننے کی باری آئی تو یہ کہہ کر انہیں رد کر دیاگیا کہ آپ کا ماسٹرریگولر نہیں ، جب انہیں ایچ ای سی کا نو ٹیفیکیشن دکھایا گیا تو کہا گیا یہ ہمارا معاملہ نہیں آپ کورٹ میں جائیں ۔صورتحال یہ ہے کہ 1982سے آج تک یہ آنکھ مچولی جاری ہے ، ہر آنے والی نئی حکومت مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات کرتی ہے، طویل مذاکرات اور میٹنگز ہوتی ہیں اور اسی ہیر پھیر میں پانچ سال گزر جاتے ہیں ۔ اب تک یہی ہوتا چلا آیا ہے اور مجھے امید نہیں یقین ہے کہ خان صاحب کے دور میں بھی یہی سب کچھ ہوگا ۔ اس سارے عرصے میں نقصان کس کا ہوا اور حالات کے جبرکا شکار کسے ہونے پڑھا ، ان ہزاروں طلباء کو جو آٹھ دس سال مدارس میں پڑھتے ہیں ،زندگی کا بہترین حصہ خدمت دین کے لیے وقف کرتے ہیں اور آخر میں انہیں یہ کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے کہ آپ کا ماسٹر ریگولر نہیں۔یہ ہے وہ اصل صورتحال،پس منظر اورموجودہ منظر نامہ ہے جو اس وقت چل رہا ہے۔
روزگار کا مسئلہ انسانی زندگی کے بنیادی اور اہم ترین مسائل میں سے ہے ، انسانی زندگی کے تمام مسائل اسی بنیادی مسئلے کے گرد گھومتے ہیں، آپ ایک منٹ کے لئے اپنی زندگی پر غور کریں ، آپ اپنے ارد گرد رہنے والے انسانوں پر ریسرچ کریں اور سڑکوں پر بھاگتے دوڑتے انسانوں کا تجزیہ کریں آپ کو نظر آئے گا ہر انسان معاشیا ت کے پیچھے دھوڑ رہا ہے ، آپ کا اپنا سارا دن معاشیات کی نذر ہوتا ہے، آپ کے ارد گرد رہنے والے سارے انسان کمانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور سڑک پر دھوڑتا ہر انسان معاشیات کا پیچھا کر رہا ہے ۔ ایک صدر اوروزیر اعظم سے لے کر ایک عام مزدورتک ہر زندہ انسان کی یہی کہانی ہے ۔آپ کسی دن اپنے گھر کے باہر یا کسی مین شاہراہ پر بیٹھ جائیں اور صبح سے شام تک ہر آنے جانے والے انسان کا تجزیہ کریں آپ کو سو میں سے ایک سو ایک فیصد انسان معاشیات کے چکر میں بھاگتے دوڑتے نظر آئیں گے ۔ حتی کہ وہ لوگ جو نظاہر سادگی اور ترک دنیا کا درس دیتے ہیں وہ بھی آپ کو اس صف میں کھڑے نظر آئیں گے ،ایک عالم اور شیخ الحدیث تک اس اصول سے مستثنیٰ نہیں کہ وہ بھی زندگی گزارنے کے لیے ، اسباب کی حد تک معاشیات کے محتاج ہیں ۔ یہ سب کیا ہے ،یہ وہ ازلی حقیقت اور ابدی سچائی ہے جس کا کوئی معقول انسان انکار نہیں کر سکتا۔کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ کارل مارکس اور اس کی فکر و فلسفے کو سلام پیش کروں جس نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی تھی کہ ساری انسانی تاریخ معاشی جھگڑوں کے ارد گرد گھومتی ہے ۔
میرا کرب اور اضطراب یہی ہے کہ ارباب مدارس نے انسانی زندگی کے اس بنیادی اور اہم ترین مسئلے کو کیوں نظر انداز کر رکھا ہے ۔ ایک عالم کہ جس شان میں استغناء اور بے نیازی کوٹ کوٹ کر بھری ہونی چایئے اسے دوسروں کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ عالم یا امام سوسائٹی کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے ، وہ جو منبر و محراب پر درس دے رہا ہوتا ہے جب تک اپنے عمل سے اس کا اظہار نہ کرے اس کی بات کھوٹے سکے جتنی اہمیت نہیں رکھتی اور معذرت کے ساتھ کہ اس کے جو معاشی حالات ہوتے ہیں ان کے ہوتے ہوئے وہ کبھی رول ماڈل نہیں بن سکتا ،رول ماڈل تو کجا وہ اپنی عزت نفس اور سفید پوشی کا بھرم بھی قائم رکھ لے تو بڑی بات ہے ۔ میں نے بڑے بڑے موٴدب،بڑوں پر اعتماد کرنے والے اورذہین طلباء کو دیکھا ہے کہ وہ فراغت کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور انہیں مذکورہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو مایوسی میں ان کی زبانیں لمبی ہو جاتی ہیں ، بڑوں پر اعتماد ختم اور شکوے شکایتیں باقی رہ جاتی ہیں ۔میں نے اساتذہ کے بہت قریبی اور بخاری شریف کی عبارت پڑھنے والے طلباء کو لاہور ہال روڈ پر موبائل کی دکانوں کے باہر اڈا لگائے دیکھا ہے ، دورہ حدیث کی پانچ سو طلباء کی کلاس کے امیر کو کریانہ کی دکان چلاتے دیکھا ہے ۔باصلاحیت طلباء کو غم روز گار کے سلسلے میں لبرلز اور نام نہاد اسلامی اسکالرز کے ہاتھوں استعال ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سب پیشے اور محنت مزدوری معیوب نہیں اور نہ یہ میرا مطمح نظر ہے، میرا کرب البتہ یہ ہے کہ جب آپ کا ذہین ترین طالبعلم اور آپ کی آٹھ دس سالہ محنت یوں سڑکوں اور بازاروں میں ضائع ہوتی ہے تو کم از کم میرا دل ضرور دکھتا ہے ۔ قحط الرجال کے اس دور میں اگرہم باصلاحیت طلباء کو ایسے ہی نظر انداز کرتے رہیں گے تو ایک دن یہ نسل بڑوں پر عدم اعتماد اور بیزار ی کا اظہا ر کر دے گی ۔یہی وہ طوفان ہے جس کے خدشے کا اظہار میں نے چند دن قبل ان الفاظ میں کیا تھا” مدارس کی دنیا میں ،آنے والے زمانے میں، زیر زمین ایک لاوابل رہا ہے ،ایک سونامی ہے جس کی لہریں دن بدن بلند ہوتی جا رہی ہیں ، حالات ایک خطرناک طوفان کا پتا دے رہے ہیں، لیکن کیا ارباب مدارس کو اس کا اندازہ ہے ، وہ اس آتش فشاں اور سونامی کی شدت سے آگاہ ہیں ؟اگر ہاں تو اس کے سامنے بند باندھنے کے لیے وقت بہت کم ہے ، اگر نہیں تو عنقریب یہ طوفان سب کچھ ملیا میٹ کر دے گا ۔ میرا اضطراب مگر یہ ہے کہ ارباب مدارس ان حالات سے بے خبرہیں یا دانستہ چشم پوشی کر رہے ہیں ،وجہ کوئی بھی ہو،نتائج خطرناک اور ہوش ربا ہیں ۔اس وقت ان کے پاس صرف دو آپشن ہیں ، ممکنہ طوفان سے نمٹنے کے لیے حکمت علمی اپنائیں یا نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں ۔ “
روز گار کا مسئلہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس مسئلے کو نظر انداز کر کے ہم اپنی نئی نسل سے خدمت دین کے اس کام کی توقع نہیں کر سکتے جس کی اس وقت ضرورت ہے ۔ نبی اکرم نے فرمایا تھا کہ بعید نہیں فقر تمہیں کفر تک پہنچا دے ۔ سید حسین احمد مدنی نے آج سے اسی سال قبل اس مسئلے کی نشاندہی کر دی تھی ، 1937میں علی گڑھ میں ہونے والی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی پچاس سالہ تقریب کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا :”غور طلب یہ امر ہے کہ صرف ہندوستان میں شاید کئی لاکھ مسلمان ہر سال عربی تعلیم میں مشغول رہتے ہیں اور ہر سال ہزاروں طالب علم آٹھ دس برس کی محنت شاقہ کے بعد سند فراغ حاصل کرتے ہیں۔ ان کے لیے بظاہر معاش کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ یہی لوگ قومی اور مذہبی رہنما اور قومی رہبر ہوتے ہیں، مگر معمولی بسر اوقات اور اپنی قوت سے قدر کفاف حاصل کرنے کا موقع بھی ان کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رہنما ہوتے ہیں مگر محتاج، رہبر بنتے ہیں مگر مفلس اور احتیاج کی وجہ سے جو جو خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں وہ ہوتی رہتی ہیں۔
یہ چیز ناممکن ہے کہ مسلمانوں کو عربی تعلیم سے روک دیا جائے اور روکنا مناسب اور جائز بھی نہیں۔ ورنہ یہ مسلمانوں کی مذہبی اور ملی تباہی کا باعث ہو جائے گا۔ لہٰذا کیا مسلمانوں کی اس تعلیمی کانفرنس کے لیے یہ امر غور طلب نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی عربی تعلیم کے مسئلہ کی طرف اپنی مکمل توجہ منعطف کرتی ہوئی عربی تعلیم یافتہ اشخاص کے ذرائع معاش کے مسئلہ کو حل کرے۔
یقیناًمسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے اس مسئلہ سے اب تک بہت بڑی غفلت برتی ہے۔ شکایت کی جاتی ہے کہ اچھے علماء پیدا نہیں ہوتے، مگر اچھے علماء پیدا ہونے کے اسباب و ذرائع کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا مشہور مقولہ ہے” لو کلفت بصل ما عرفت مسئلہ“ کہ اگر مجھے پیاز کی تکلیف دی جاتی تو ایک مسئلہ کو بھی نہ پہچانتا۔ ضروری ہے کہ علماء کو احتیاج اور افلاس سے نکالا جائے۔ ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ اپنی روزی اپنے قوت بازو سے حاصل کر سکیں تاکہ ان میں فارغ البالی، خود داری، آزادی رائے پیدا ہو سکے اور ”چہ خورد بامداد فرزندم“ سے فی الجملہ آزاد ہو جائیں۔ یہ امر مشکل نہیں ہے مگر اس کے لیے متفقہ قومی آواز کی ضرورت ہے۔ “(جاری ہے )
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.