یونیورسٹی ، فلم اور ڈرامہ !

پیر 15 مارچ 2021

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

انیس سو اسی میں مریکا کے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے رپورٹ شائع کی تھی کہ دنیا میں سب سے مضبوط خاندانی نظام مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلم سماج میں لوگ آج بھی والدین کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور ان کی موجودگی کو نیک شگون خیال کرتے ہیں ۔ان معاشروں میں دنیا میں سب سے ذیادہ والدین کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اکثر فیصلے ان سے کروائے جاتے ہیں حتی کہ شادی جیسا اہم فیصلہ بھی ان کی مرضی سے جاری ہوتا ہے ۔

اس خاندانی نظام اور تہذیب کو کیسے تباہ اورویسٹرنائز کیا جا سکتا ہے اس کے لیے امریکہ میں ریسرچ شروع ہوئی ۔ دنیا کے اکثر اسلامی ملک اور آبادی جنوبی ایشیاء میں ہے ، پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش تقریبا پچاس کروڑ سے زائد مسلم آبادی رکھتے ہیں ، اس کے ساتھ انڈونیشیا ، ملائشیا ، مالدیپ اور برونائی بھی اسی خطے میں واقع ہیں ، وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستیں بھی متصل ہیں اور بیس پچیس عرب ممالک بھی ان کے پہلو میں واقع ہیں ۔

(جاری ہے)

اس سارے خطے کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ریسرچ شروع ہوئی ، تھینک ٹینک قائم ہوئے اور یہ تجویز پیش کی گئی کہ انڈیا کی فلم انڈسٹری جنوبی ایشیاء کی ابھرتی ہوئی انڈسٹری ہے ، انڈیا کی بنی ہوئی فلمیں پاکستان، بنگلہ دیش ، عرب ممالک اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک دیکھی جاتی ہیں لہذا یہ کام انڈیا کی فلم انڈسٹری کے ذریعے کیا جا سکتا ہے ۔ امریکہ کے ایک نامور ادارے نے انڈیا کے پچیس نامور پروڈیوسرز کو اسکالرشپ کی آفر کی ، انہیں اپنے ہاں بلایا ،فلم میکنگ کی ٹریننگ دی اور اس کے ساتھ ہی اپنا ایجنڈا انہیں تھما دیا ۔

یہ لوگ واپس آئے اور فلم سازی شروع کر دی، نوے کی دہائی میں ان پروڈیوسرز نے ایک مشہور فلم بنائی جس میں ایک نامور اداکارہ شادی کے معاملے میں اپنے والد سے اختلاف کرتی ہے، والد اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لڑکی اپنی بات پر اڑ جاتی ہے ، پھر ایک ایسا سین دکھایا جاتا ہے جس میں والد اور لڑکی آپس میں بحث کر تے ہیں ، دونوں اونچی آواز میں بولنے لگتے ہیں ، والد بیٹی کو خاموش کروانے کی کوشش کرتا ہے اسی دوران لڑکی طیش میں آکر والد کو تھپڑ رسید کر دیتی ہے ۔

پوری فلم میں یہ سین مرکزی سین ہوتا ہے اور اس کے بعد والد اپنی بیٹی کے سامنے سر جھکا دیتاہے ۔ نوے کی دہائی میں بننے والی یہ فلم اور اس کا یہ سین اس خطے میں ایسی فلموں اور ڈراموں کاتالاب میں پھینکا جانے والا پہلا پتھر تھا ۔ اس کے بعد جتنی بھی فلمیں اور ڈرامے بنے ان میں والدین کی نافرمانی، اپنی مرضی سے شادی اور خاندانی نظام کی تباہی کے سین سرعام دکھانے کا رواج عام ہو گیا ۔


یہ انیس سو اسی اور نوے کی دہائی کی بات تھی ، اس کے بعد بالی وڈ انڈسٹری نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آج بالی وڈ اور ہالی وڈ میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ۔ ایک فلم کروڑوں روپے کے بجٹ سے بنتی ہے اور جو لوگ کروڑوں روپے لگاتے ہیں وہ ویسے ہی نہیں لگاتے ، ایک فلم یا ڈرامہ آپ کی پوری سوسائٹی کی رائے بدل دیتا ہے اور موجودہ دور میں فلم اور ڈرامہ رائے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

سماج کے رہن سہن کا تعین ، گفتگو ، ڈائیلاگز، مردوں اور خواتین کے فیشن، تمام ملبوسات اور جوتوں کے برانڈز ، گھریلو بناوٹ و سجاوٹ ، شادی بیاہ کی رسمیں ، خوشی و غمی کا موقع، بالوں اور ناخنوں کی تراش خراش ، سر کے بالوں اور ڈاڑھی کا فیشن اور آپ کا مجموعی طرز زندگی ، ان سب کا تعین غیر شعور ی طور پر فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کر رہے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب پاکستانی ڈرامہ ہماری تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوا کرتا تھا اور لوگ فیملی کے ساتھ بیٹھ کراسے دیکھ سکتے تھے ۔

مجھے یاد ہے کچھ عرصہ قبل، ایک ورکشاپ کے سلسلے میں، میں قطر کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا ، میرا روم میٹ انڈین تھا اور اس نے چھوٹتے ہی مجھے کہا تھا کہ میری امی پاکستانی ڈراموں کی بہت فین ہیں ۔لیکن اب ہمارے ڈراموں میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رہی ، ناجائز تعلقات ، نیم عریاں لباس ، ذومعنی جملے اور نامناسب کہانی ۔ اب کوئی انسان فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنا چاہئے تو شرمندہ ہو جائے ۔

ایک طرف پاکستانی ڈرامے اور سوشل میڈیا ہے اور دوسری طرف انڈین فلموں کی بھرمار ہے ، پہلے انڈیا کی صرف اردو فلمیں آتی تھیں اب رہی سہی کسر انڈین پنجابی فلموں نے پوری کر دی ہے ۔ آپ پاکستانی پنجاب کے کسی حصے میں چلے جائیں آپ کو بچے بچے کی زبان پر انڈین پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ نظر آئیں گے ، ان پنجابی فلموں کے گانے تو یوں لگتا ہے جیسے ہماری ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں ، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جب تک ان پنجابی گانوں کی دھنیں نہ بجیں کوئی تقریب مکمل نہیں ہو تی۔

انڈین پنجابی فلموں کی کہانیاں بھی لڑکی ، شادی اور عشق کے گرد گھومتی ہیں ، اس لحاظ سے پنجابی فلموں نے پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کو ضرورت سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ اس وقت سماج کی صورتحال یہ ہے کہ انٹر نیٹ ، موبائل ،سوشل میڈیا ، انڈین فلمیں، پاکستانی ڈرامہ، عشق و عاشقی پر مبنی فلمیں ، انڈین پنجاب کی پنجا بی فلمیں ، یونیورسٹیوں کا آذادانہ ماحول اورشای بیاہ کے موقعہ پر ناچ گاناان سب خرافات نے پاکستانی سماج کوتباہ وبرباد کر دیا ہے ۔

اس آزادانہ ماحول اور بے لگام آذادی نے سب سے زیادہ نوجوان نسل کومتاثر کیا ہے اور اس میں بھی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد کہیں ذیادہ ہے ۔ اگر آپ فیملی کورٹس کا ڈیٹا دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ لو میرج اور اس کے نتیجے میں طلاق کی شرح زمین سے آسمان پر چلی گئی ہے ۔ اور اگر آپ اپنے ضلعے کے دار الامان کا جائزہ لے لیں تو آپ سر پکڑ لیں گے کہ اتنی ذیادہ تعداد میں لڑکیاں گھروں سے بھا گ کر اورلو میرج کے چکر میں ناکامی کے بعد دار الامان کا رخ کرتی ہیں ۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے اس کی وجہ میڈیا، فلم اور ڈرامہ انڈسٹری ہیں ۔
 لاہور کی ایک یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا یہ اسی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے لازمی اثرات ہیں ، نئی نسل جس ماحول اور کلچرمیں پروان چڑھی ہے اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں ، اس کے ہیروز وہی ہیں جسے اس نے فلم اور ڈرامے میں دیکھا ہے ، اس کے لیے آئیڈیل زندگی وہی ہے جو فلم او ر ڈرامے میں دیکھائی گئی ہے ، اس جوڑے کو ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں ، اس پر مستزاد پاس کھڑے تماشائی ہیں جو اس عمل سے اظہار نفرت کی بجائے ویڈیوز بنا رہے ہیں ، تالیاں بجا رہے ہیں اور قہقہے بلند ہو رہے ہیں ۔

یہی ہماری نئی نسل کا المیہ ہے ، تصور گناہ مسخ ہو چکا ہے، اچھائی اور برائی کے معیارت بدل چکے ہیں اور طرز زندگی یکسر بدل چکا ہے ۔تعلیمی درسگاہوں میں پڑھانے جانے والے علوم مغربی افکار پر مبنی ہیں اور لائف سٹائل انڈین فلموں سے مستعار ، اس کے بعد نسل نو کے بھٹکنے کے سواکیا راستہ بچتا ہے ۔ ابھی وقت ہے کہ تعلیم ، سماج اور اداروں کا قبلہ درست کر لیا جائے ورنہ مزید کچھ سالوں کے بعد یہ بھی ممکن نہیں رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :