
اسے سنگسار کر دو
ہفتہ 12 ستمبر 2020

محمد کامران کھاکھی
پتہ نہیں آج سانحہ ساہیوال کے وہ معصوم بچے کیوں دماغ سے اتر ہی نہیں رہے جن کے بے گناہ والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے ایسے مار ڈالا گیا جیسے وہ معاشرےکے لیے نقصان دہ ہوں۔
(جاری ہے)
ایسا ہر واقعہ جب بھی ہوتا ہے تو لوگوں میں شور اٹھتا ہے ، مذمتیں ہوتی ہیں، انصا ف کی چیخ و پکا ر ہوتی ہےجس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی چوکس ہو جاتے ہیں ، حکومتی ارکان بھی بڑے دعوے کرتے ہیں مگر اس سے پہلے کہ انصاف ہو وہ شور بھی تھم جاتا ہے اورہم لوگ پھر اسی بے حسی و بے بسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم کتنی جلدی بھولنے کے عادی سے ہو گئے ہیں۔ اسلام تو ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ایک معصوم کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ہم اتنے گر گئے ہیں کہ معصوم بچوں کو درندگی کا نشانہ بنا کرقتل کرتے ہیں اور پھر بھی اللہ پاک کی زمین پر اتراتے پھرتے ہیں ۔ پھر بھی ہمارے دل خوف سے نہیں پھٹتے، پھر بھی ہم اپنے اپنے کاموں میں ایسے مشغول ہوتے ہیں جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں۔ ہمیں عذاب الہی کا ڈر نہیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں صفحہء ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں جن میں انصاف باقی نہیں رہتا۔خیبر پختونخواہ میں ایک درندہ گرفتار ہوتا ہے جس نے کئی معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کی اور ان کی وڈیوز بنا کر بیچتا رہا اور وہ ہماری ہی حکومت کے وزیروں کی سفارش پر ایک اعلی عہدے پر کام بھی کرتا رہا اور ابھی تک اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اتنا اندھیر کہ خود قبول کر کے بھی انصاف کے لیے ثبوتوں کی ضرورت ہو۔
اگر انصاف وقت پر ملتا تو لاہور سے سیالکوٹ جانیوالی موٹر وے پر جو واقعہ پیش آیا اس طرح کے واقعات کبھی بھی نہیں ہوتے۔ جہاں ایک خاتون اپنے بچوں کے سامنے ہوس کا نشانہ بنی ، جہاں پر ایک خاتون نے قانون کے محافظوں کو فون بھی کیا مگر جواب ملا کہ یہ ہماری حدود میں نہیں اوراب اس پر الٹا یہ کہتے ہیں کہ کیا ضرورت تھی اکیلے جانے کی؟ اور کہنے والے بھی وہ جو خود ذمہ دار ہیں اس طرح کی واردات نہ ہونے کے۔ جن کا کام ہی یہی ہے عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنا۔یعنی ذمہ داری کا احساس ہی ختم ہو چکا۔علاقہ مکینوں کے مطابق اسی جگہ پہلے بھی ڈکیتی کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں اگر پہلے ہی ایکشن لیا جاتا تو کیا اس واقعہ سے بچا نہیں جا سکتا تھا ؟ کس کی نا اہلی ہے؟
خیرہم بھی بحیثیت انسان کم نہیں ہم نے بھی ابھی رولا ڈالنا ہے اور پھر کچھ ہویا نہ ہو ہم نے بھول جانا ہے اور ہماری توجہ کسی اور طرف ہو جانی ہے۔ان واقعات میں جو ملوث ہیں وہ تو درندے ہیں ہی مگر کیا خاموشی سے ہم بھی ان کی پشت پناہی نہیں کرتے؟ ان درندوں کو پابند سلاسل کس نے کرنا ہے؟ ان کا شکار کس نے کرنا ہے؟
ان درندوں سےمعصوم بچوں، لڑکوں،لڑکیوں،عورتوں کی عصمتوں کو کس نے بچانا ہے؟ یہ کام حکومت وقت کے کرنے کے ہیں کہ ان درندوں کو ایک ایسے عبرت ناک انجام تک پہنچائے کہ کل کو کوئی اور ایسی درندگی کرنے سے پہلے ہی کانپ جائے ، اسے سنگسار کرو یا پھر چوراہوں میں لٹکاو تاکہ کوئی اور ایسی خباثت کا سوچ بھی نہ سکے ورنہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہمارے بچے غیر محفوظ رہیں گے۔
خون پھر خون ہے ٹپکےگا ، تو جم جائیگا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد کامران کھاکھی کے کالمز
-
آدھا سچ، سیاست اور دھوکہ
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
عوامی بجٹ اور حکومتی خوشخبریاں
ہفتہ 19 جون 2021
-
ہماری کوئی غلطی نہیں
بدھ 16 جون 2021
-
بدلا ہے خیبر پختونخواہ
بدھ 9 جون 2021
-
روک سکو تو روک لو۔۔!
ہفتہ 5 جون 2021
-
کوئی بھوکا نہ سوئے
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
خدمت آپ کی دہلیز پر
جمعرات 22 اپریل 2021
محمد کامران کھاکھی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.