پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ

بدھ 27 جنوری 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

جیسے 2016ء میں پانامہ کا ہنگامہ برپا تھا آج کل براڈ شیٹ کا بول بالا ہے جس پہ ہمارے ملک کو جرمانہ ہو ا ،جو ادا بھی ہو گیا اور ہم ابھی تک یہ نہیں معلوم کر سکے کہ یہ کیوں ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب ہمیں ہاتھ پیر چلانے فکر ہوتی ہے۔2000ء میں ایک غیر معروف کمپنی سے کیا گیا خفیہ معاہدہ جسے 2003ء میں ہم اپنی طرف سے ختم بھی کر چکے تھے ۔

اس معاہدہ کے تحت دو سو لوگوں کے اثاثے ڈھونڈنے تھے مگر کسی ایک کے بھی اثاثے نہ ڈھونڈ سکی اور پھر بھی براڈ شیٹ بڑے آرام سے سارے چار ارب لے گئی اور ہم بیٹھے لکیر پیٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ ہماری ہی عدالت میں پیش کی جانیوالی رپورٹ اس جرمانے کی بنیادبنی  یعنی جس نیب نے اس کمپنی سے معاہدہ کیا تھا اور اس میں یہ بھی مان لیا کہ ہم یہ معاہدہ ختم ہی نہیں کر سکتے پھر بھی اسے تین سال بعد اپنی طرف سے ختم  بھی کر دیا۔

(جاری ہے)

پھر خود ہی اس کمپنی کو کیس جیتنے کے لیے مواد بھی دیا اور پاکستان میں جس کیس کی بنیادپر کامیابی حاصل کی لندن میں اسی کو جھٹلانے کی کوشش بھی کر ڈالی، مگر پھر بھی جرمانہ ہو گیا۔ چلو ہو گیا تو ہو گیا مگر حکومت نے بھی بڑی پھرتی دکھائی اور لندن عدالت کے پاکستان ہائی کمیشن کے اکاونٹ کو ضبط کرنے کے فیصلہ سے پہلے ہی اس اکاونٹ میں پیسے بھیج دیے تاکہ ان کا کام آسان ہو سکے اور پیسے ادا ہو سکیں۔

مطلب اس کمپنی سے اتنی ہمدردی آخر کسی نہ کسی کو تو ہے۔خیر رات گئی بات گئی مگر ہم آگے کی نہیں سوچیں گے۔موجودہ حکومت  کی اہلیت ایک طرف مگر ان کی  اس بات میں کچھ نہ کچھ تو صداقت  ہے کہ پچھلی حکومت ذمہ دار ہے کیونکہ اتنے اہم معاملات کے لیے کوئی تیاری کیو ں نہیں کی  گئی اور انہیں حل کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟
بات بڑھی تو بڑھتی جائے گی مگر میرا یہاں موضوع  براڈشیٹ نہیں بلکہ ایک اور بہت ہی خطرناک بلاء ہے جو پر پھیلائے ہمارے ملک کے اوپر  حملہ کرنے کے لیے تیار ہے مگر کوئی بھی اس کو روکنے کے لیے تیار نہیں دکھائی دیتا۔

کیو ں کہ حملہ ہوگا، نقصان ہوگا تو ہم چیخنا شروع کریں گے نا یہ تو ہماری عادت ہے۔ کہ تنقید کریں گے اصلاح نہیں ۔ اس بلاء کا نام ہے "ریکوڈک کیس"۔ جی ہاں ریکوڈک کیس میں بھی پاکستان پر ہرجانہ ہو چکا ہے جس کی ادائیگی کورونا کا سہارا لے کر ہم نے موءخر کرائی ہو ئی ہے اور وہ جرمانہ براڈ شیٹ سے بہت زیادہ ہے اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ ہے۔


ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس میں دنیا کی پانچویں بڑی سونے اور تانبے کی کان ہے۔ریکوڈک  کیس کی تاریخ سادہ اور عام فہم زبان میں یہ ہے کہ یہ معاہدہ بلوچستان حکومت اور معدنیات نکالنے والی کمپنی کے مابین1993ء میں ہوا مگر اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تو 1998ء میں پھر سے ایک معاہدہ ہوا مگر نتائج صفر پھر  2000ء میں یہ معاہدہ ایک آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی ٹی۔

سی۔سی کے ساتھ انہی شرائط پر ہوا مگر اس پر بحث 2006ء میں شروع ہوئی جب بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے بلوچستان ہائی کورٹ میں اس معاہدہ کے خلاف درخواست دائر کی جو کہ 2007ء میں خارج کر دی گئی۔ اس کے بعد عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی جس کے نتیجے میں افتخار محمد چودھری نے پاکستان کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو اسی بلوچستان اسمبلی کے رکن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔

جس کے بعد کئی وکلا ء نے بھی پٹیشنز دائر کیں۔
2008ء میں حکومت کی تبدیلی ہوئی تو نئی صوبائی حکومت نے 2009ء میں اس معاہدہ کو ختم کر دیا۔جس پر ٹی۔سی۔سی نے 2010ء میں بلوچستان حکومت کو نئی فزیبیلٹی رپورٹ پیش کر دی  اور فروری 2011ء میں کان کنی کے لیے ایک نئی درخواست بھی حکومت کو بھیج دی جسے نومبر 2011ء میں بلوچستان حکومت نے مسترد کر دیا۔فروری 2011ء میں ہی سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کو ریکوڈک کیس سے متعلق تمام دستاویزات جمع کرانے کا حکم دیا اور 2013ء میں  یہ فیصلہ بھی دیا کہ 1993 میں ہونے والا یہ معاہدہ  آئین سے متصادم اصولوں کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا ہے ۔

اس لیے  عدالت نے اس معاہدہ کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا ۔
مگر سپریم کورٹ کے فیصلہ میں اس امر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ عالمی عدالتوں میں اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں حالانکہ اس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی نومبر 2011ء میں  ٹی سی سی نے انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (اِکسڈ) – جو کہ سوئٹزرلینڈ میں قائم ایک ایسی عدالت ہے جو کاروباری تنازعات میں ثالثی کا کام کرتی ہے، میں کیس دائر کر دیا تھا اور یہ نکتہ اٹھایا کہ معاہدے کی منسوخی کی وجہ سے اس کا وقت اور پیسہ ضائع ہوا ہے چنانچہ پاکستان کو اس ضیاع کا ہرجانہ ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔

جس پر 2019ءمیں عالمی ثالثی عدالت  نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دے دیا اور حکومتِ پاکستان کو تقریبا چھ ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ یہ  جرمانہ عدالت کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ ہے جوکہ پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے ملنے والی ادھار رقم کے برابر ہے۔
پاکستان نے اس جرمانے کے خلاف یہ کہہ کر اپیل دائر کر دی کہ اتنی بڑی رقم کی ادائیگی سے پاکستان کی کورونا کے خلاف لڑائی متاثر ہو گی اورعالمی عدالتی ٹربیونل نے اس فیصلہ پر عمل درآمد فی الحال روک دیا ہے ۔

اب اس سال اس کا فیصلہ ہوگا مگر کیا ہم اس فیصلے کو کالعدم کروا سکیں گے؟ اس کے لیے کیا تیاری ہو رہی ہے یا پھر اتنی بڑی رقم بھی عوام پر ایک بوجھ بنے گی جو کہ پہلے ہی قرضوں میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں ، جو کہ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :